Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 72
وَ اِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ١ۚ فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَهُمْ شَهِیْدًا
وَاِنَّ : اور بیشک مِنْكُمْ : تم میں لَمَنْ : وہ ہے جو لَّيُبَطِّئَنَّ : ضرور دیر لگا دے گا فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَتْكُمْ : تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالَ : کہے قَدْ اَنْعَمَ : بیشک انعام کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيَّ : مجھ پر اِذْ : جب لَمْ اَكُنْ : میں نہ تھا مَّعَھُمْ : ان کے ساتھ شَهِيْدًا : حاضر۔ موجود
اور تم میں کوئی ایسا بھی ہے کہ (عمدا) دیر لگاتا ہے پھر اگر تم پر کوئی مصیبت پڑجائے تو کہتا ہے کہ خدا نے مجھ بڑی مہربانی کی کہ میں ان میں موجود نہ تھا
وَاِنَّ منکم لَمَنْ لَیُبَطّئَنَّ ، یہ منافقین کا ذکر ہے جو جہاد میں جانے سے پس وپیش کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ پیچھے رہ جائیں، زمانہ ٔ بنوت میں منافقین کا ایک مستقل کام یہ تھا کہ نہ صرف یہ کہ خود جہاد میں شریک ہونے سے پس و پیش کرتے تھے بلکہ دوسروں کو روکنے کے لئے ہمت شکنی کا کام کرتے تھے، چناچہ جنگ احد میں ان کی یہ حرکت بالکل بےنقاب ہوچکی تھی، آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ جہاں مسلمان کے لئے کوئی ایسا موقع ہوتا ہے تو وہ اعلاء کلمة اللہ کے راستہ کا سنگ گراں ثابت ہوتے ہیں، چناچہ تقریباً دو برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ جب بھی کوئی تحریک اعلاء کلمة اللہ کے لئے اٹھی ہے اسے سب سے پہلے ان پتھروں ہی سے سابقہ پڑتا ہے۔
Top