Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 91
سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّاْمَنُوْكُمْ وَ یَاْمَنُوْا قَوْمَهُمْ١ؕ كُلَّمَا رُدُّوْۤا اِلَى الْفِتْنَةِ اُرْكِسُوْا فِیْهَا١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَعْتَزِلُوْكُمْ وَ یُلْقُوْۤا اِلَیْكُمُ السَّلَمَ وَ یَكُفُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فَخُذُوْهُمْ وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ١ؕ وَ اُولٰٓئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
سَتَجِدُوْنَ : اب تم پاؤ گے اٰخَرِيْنَ : اور لوگ يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ يَّاْمَنُوْكُمْ : کہ تم سے امن میں رہیں وَ : اور يَاْمَنُوْا : امن میں رہیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم كُلَّمَا : جب کبھی رُدُّوْٓا : لوٹائے (بلائے جاتے ہیں) اِلَى الْفِتْنَةِ : فتنہ کی طرف اُرْكِسُوْا : پلٹ جاتے ہیں فِيْھَا : اس میں فَاِنْ : پس اگر لَّمْ يَعْتَزِلُوْكُمْ : تم سے کنارہ کشی نہ کریں وَيُلْقُوْٓا : اور (نہ) ڈالیں وہ اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف السَّلَمَ : صلح وَيَكُفُّوْٓا : اور روکیں اَيْدِيَھُمْ : اپنے ہاتھ فَخُذُوْھُمْ : تو انہیں پکڑو وَاقْتُلُوْھُمْ : اور انہیں قتل کرو حَيْثُ : جہاں کہیں ثَقِفْتُمُوْھُمْ : تم انہیں پاؤ وَاُولٰٓئِكُمْ : اور یہی لوگ جَعَلْنَا : ہم نے دی لَكُمْ : تمہارے لیے عَلَيْهِمْ : ان پر سُلْطٰنًا : سند (حجت) مُّبِيْنًا : کھلی
ان کے علاوہ تم کچھ ایسے لوگوں کو بھی پائو گے جن کا مقصد یہ ہے کہ تم سے بھی بےخوف رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں مگر ان کی حالت یہ ہے کہ جب کبھی ان کو کسی شرارت کی طرف بلایا جاتا ہے تو اس میں جا گرتے ہیں لہٰذا اس قسم کے لوگ اگر تم سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں اور تم سے مصالحانہ رویہ نہ رکھیں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو ایسے عہد شکنوں کو تم جہاں کہیں پائو گرفتار کرو اور ان کو قتل کرو اور اس گروہ کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے ہم نے تم کو کھلی سند مہیا کردی ہے۔2
2 ان مذکورہ لوگوں کے علاوہ تم کچھ ایسے لوگوں کو ضرور پائو گے اور تم کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی بےخوف و خطر رہیں اور اپنی قوم سے بھی مامون و محفوظ رہیں مگر اسی کے ساتھ ان کی حالت اور ان کی صفت یہ ہے کہ جب کبھی ان کو مسلمانوں کے مخالفوں اور دشمنوں کی طرف سے کسی شرارت اور فتنہ انگیزی کی دعوت دی جاتی ہے اور ان کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا اور متوجہ کیا جاتا ہے تو وہ فوراً بلاتامل اس میں جاگرتے ہیں اور اس شرارت و فتنہ انگیزی میں شریک ہوجاتے ہیں ۔ یعنی مسلمانوں سے جنگ کرنے کو آمادہ ہوجاتے ہیں لہٰذا اس قسم کے عہد شکن لوگ اگر تم سے کی سو نہ ہوں اور تمہارے ساتھ جنگ کرنے سے کنارہ کش نہ ہوں اور نہ تم سے مصالحانہ رویہ رکھیں اور نہ تمہارے قتل سے اپنے ہاتھوں کو روکیں تو اس پر تم بھی ان دھوکہ باز اور عہد شکنوں کو جہاں کہیں پائو گرفتار کرو اور قتل کرو اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے خلاف کاررو وائی کرنے کے لئے ہم نے تم کو کھلی سند اور صاف وصریح حجت مہیا کردی ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی بعضے ہیں کہ عہد بھی کر جاتے ہیں نہ تم سے لڑیں نہ اپنی قوم سے لیکن قائم نہیں رہتے جب اپنی قوم کو غلبہ ہوتا دیکھتے ہیں ان کے رفیق ہوجاتے ہیں تو ان سے تم بھی قصور مت کرو تمہارے ہاتھ سند لگی کہ وہ عہد پر قائم نہ رہے۔ (موضح القرآن) رکوع کے آخری حصے میں ایک تیسرے فریق کی حالت سے اطلاع دی گئی ہے کہ یہ لوگ تم سے اور اپنی قوم سے مامون رہنے کی غرض سے یہ ترکیب کرتے ہیں کہ تم سے معاہدہ کرلیتے کہ نہ ہم آپ سے جنگ کریں گے اور نہ آپ کے ساتھ مل کر اپنی قوم سے جنگ کریں گے لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو کوئی تمہارا دشمن تمہارے خلاف ابھارتا ہے اور ان کو غلبہ کی توقع ہوتی ہے تو یہ اس ابھارنے میں آجاتے ہیں اور اپنے تمام عہد و مواثیق کو بالائے طاق رکھ کر جنگ میں کود پڑتے ہیں اور فتنہ میں جا گرتے ہیں تو اگر یہ لوگ ایسی حرکت کریں اور صلح اور عہد کا پاس نہ کریں اور جو ا کو کرنا چاہئے یعنی اعتزال، عدم قتال اور عہد کا خیال وہ نہ کریں تو پھر یہ اسی سزا کے مستحق ہیں جو حربی کفار کے لئے بیان کی جا چکی ہے اور ان پر تو اب عہد شکنی اور وعدہ خلافی کی حجت بھی قائم ہوچکی آخری آیتں میں جو تقابل ہے وہ بھی عجیب و غریب ہے پہلی آیت میں ہے۔ فان اعتزلو کہ۔ دوسری میں ہے فان لم یعتزلوکم پہلی آیت میں ہے فلم یقاتلوکم دوسری میں لم یکفوا ایدیھم پہلی آیت میں ہے القوالیکم السلام دوسری میں ہے لم یلقوا الیکم السلم پہلی آیت میں فما جعل اللہ دوسری میں ہے اولئکم جعلنا لکم۔ سبحان اللہ العلیم الحکیم۔ بہرحال یہاں تک تین فرقوں کا ذکر فرمایا ہے۔ -1 وہ کافر جو ہجرت نہ کریں یا دارا الاسلام سے نکل کر دارالحرب میں چلے جائیں۔ -2 جو بلا واسطہ یا بالواسطہ معاہدہ کرلیں اور جنگ نہ کرنے پر مسلمانوں سے صلح کرلیں۔ -3 جو دفع الوقتی کی غرض سے صلح کرلیں اور جب مسلمانوں کے خلاف جنگ کی دعوت دی جائے تو اس میں شریک ہوجائیں اور اپنے عہد پر قائم نہ رہیں پہلے فریق کا حکم عام کفار کی مانند ہے دوسرا فریق قتل اور پکڑ دھکڑ سے مستنثٰی ہے ۔ تیسرا فریق اسی سزا کا مستحق ہے جس کا پہلا فریق تھا ان آیتوں میں جو احکام مذکور ہوئے وہ دو ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مصالحت نہ ہو تو قتال اور مصالحت ہو تو عدم قتال استثنا میں ہم نے ایک اشارہ کیا ہے جس سے معلوم ہوگا کہ استثنا صرفقتل اور پکڑ دھکڑ سے ہے ولایت اور استنصار کی اجازت نہیں ہے ولایت تو کسی حالت میں بھی کافروں سے جائز نہیں البتہ استنصار اور استعانت میں تفصیل ہے اور کسی خاص ضرورت اور اسلامی فائدے کے پیش نظر ایسا کیا جاسکتا ہے اور اگر ضرورت نہ ہو اور کوئی خاص مفاد پیش نظر نہ ہو تو استنصار اور استعانت سے اجتناب کرنا چاہئے۔ جیسا کہ غزوہ احد میں جب عبداللہ بن ابی واپس ہوا تو بعض انصار نے اجازت طلب کی کہ ہم یہود کو مدد کے لئے لے آئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ وہ خبیث ہیں ہم کو ان کی کوئی حاجت نہیں مزید تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے۔ بہرحال اس آخری آیت میں جن کا ذکر ہے وہ اہل تھامہ ہوں یا مکہ کے کچھ لوگ ہوں یا نعیم بن معسود و یا اسد اور غطفان کے لوگ ہوں۔ مفسرین نے مختلف شان نزول سے بیان کیا ہے ہم اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتے۔ جب قوموں میں انقلاب رونما ہوتا ہے اور ایک قوم کا زوال اور ایک قوم کا عروج ہونا نظر آتا ہے تو یہ سب باتیں ہوا کرتی ہیں قبل از وقت کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہونے والا ہے۔ بعض لوگ تو کھل کر ایک پارٹی کے ساتھ ہوجاتے ہیں کچھ انتظار کرتے رہتے ہیں جس کا پلہ بھاری دیکھتے ہیں ادھر ہوجاتے ہیں کچھ دونوں طرف ملے رہتے ہیں اور کسی پارٹی سے برے بننا نہیں چاہتے۔ یہی حالت عرب میں اس انقلاب کے وقت تھی جو نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت ہوا تھا اور جس کے آخر میں اسلام کو تفوق اور برتری حاصل ہوئی تھی اور کفر زوال پذیر ہوگیا تھا اس وقت ہر قبیلہ اور عرب کا ہر فقہ اپنے اپنے زاویہ نگاہ اور اپنی اپنی امیدوں اور توقعات پر کام کر رہا تھا اور ان ہی کے لئے قرآن میں وقتاً فوقتاً احکام نازل ہوتے رہتے تھے اس لئے کوئی صحیح اور آخری بات کہنی مشکل ہے اور جو خلاصہ ہم نے عرض کردیا ہے اس کو کافی سمجھنا چاہئے۔ معاہد اور حربیوں کے اور عہد شکنوں کے وہی احکام آج بھی ہیں اگرچہ وہ زمانہ مسلمانوں کی ترقی کا تھا اور اس وقت تمام احکام پر عمل آسان تھا اور آج مسلمانوں کے انحطاط کا وقت ہے اور غلامی کا دور ہے اگر آج ان قوانین پر عمل ناممکن ہے تو سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا جائے اور اس اقتدار کے حصول کی کوشش کی جائے جس سے اللہ تعالیٰ کا قانون بلند ہو سکے۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔ یعنی اب آگے اسی سلسلے میں قتل کے بعض اور احکام بیان فرماتے ہیں اور قتل کی بعض صورتوں کے احکام بیان کرتے ہیں اور آخر میں پھر مجاہدین کی فضیلت مذکور ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top