Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والے
لَا تَسْئَلُوْا
: نہ پوچھو
عَنْ
: سے۔ متعلق
اَشْيَآءَ
: چیزیں
اِنْ تُبْدَ
: جو ظاہر کی جائیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
تَسُؤْكُمْ
: تمہیں بری لگیں
وَاِنْ
: اور اگر
تَسْئَلُوْا
: تم پوچھوگے
عَنْهَا
: ان کے متعلق
حِيْنَ
: جب
يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ
: نازل کیا جارہا ہے قرآن
تُبْدَ لَكُمْ
: ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے
عَفَا اللّٰهُ
: اللہ نے درگزر کی
عَنْهَا
: اس سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
حَلِيْمٌ
: بردبار
مومنو ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتں) تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر قرآن نازل ہونے کے زمانے میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے۔
آیت 101 تا 107 ترجمہ : لوگوں نے جب آپ ﷺ سے کثرت سے سوالات کرنے شروع کئے تو یہ آیت نازل ہوئی اے ایمان والو ایسی (فضول) باتوں کا سوال نہ کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اس لئے کہ اس میں دشواری ہو، اور اگر تم نزول قرآن کے دوران یعنی آپ ﷺ کے زمانہ حیات میں ان باتوں کا سوال کرو گے تو تم کو جواب دیدیا جائیگا، مطلب یہ کہ جب تم آپ کے زمانہ حیات میں چیزوں کے بارے میں سوال کرو گے تو قرآن (ان کا جواب) ظاہر کرنے کے بارے میں نازل ہوگا اور جب قرآن ان چیزوں کا جواب ظاہر کر دے گا تو تمہیں ناگواری ہوگی، لہٰذا ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو، اللہ نے تمہارے (ماضی میں) سوال کرنے کو معاف کردیا، آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بردبار ہے، ایسی باتیں تم سے پہلی قوم نے اپنے انبیاء سے پوچھی تھیں ان کے احکام بیان کرکے ان کا جواب دیدیا گیا، پھر وہ ان احکام پر ترک عمل کرکے ان احکام کے منکر ہوگئے اللہ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو جیسا کہ اہل جاہلیت اس کو کرتے تھے، امام بخاری نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ بحیرہ اس جانور کو کہتے ہیں کہ جس کا دودھ دوہنا بتوں کے نام پر موقوف کردیا جاتا تھا، چناچہ کوئی شخص ان کا دودھ نہیں دوہتا تھا، اور سائبہ اس جانور کو کہتے ہیں جس کو وہ اپنے معبودوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے تھے، چناچہ وہ اس کو بار برداری کے کام میں نہیں لیتے تھے، اور وصیلہ اس نوجوان اونٹنی کو کہتے تھے جو پہلی ہی بار مادہ بچہ جنے پھر دوبارہ بھی مادہ بچہ جنے کہ ان کے درمیان نر بچہ نہ ہو، اور حام وہ اونٹ جو دس بار جفتی کرے، جب وہ مذکورہ تعداد پوری کرلیتا تو اس کو بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے، اور اس پر بار برداری ترک کردیتے کہ اس پر کوئی چیز نہ لادتے، اور اس کا نام حام رکھتے تھے، لیکن (یہ) کافر اس معاملہ میں اس کی جانب نسبت کرنے میں اللہ پر چھوٹی تہمت لگاتے تھے، اور ان میں اکثر لوگ نہیں جانتے کہ یہ تہمت ہے اسلئے کہ انہوں نے اس معاملہ میں اپنے آباء کی تقلید کی ہے، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی طرف آؤ جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف آؤ یعنی اسکے حکم کی طرف کہ وہ جس کو تم نے حرام کیا ہے اس کو حلال کرنا ہے تو کہتے ہیں کہ جس دین و شریعت پر ہم نے اپنے آباء (و اجداد) کو پایا ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا یہ ان کیلئے کافی ہوگا اگرچہ ان کے آباء کچھ نہ جانتے ہوں ؟ اور راہ حق کی طرف ہدایت یافتہ نہ ہوں استفہام انکار کیلئے ہے، اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو یعنی اپنی حفاظت کرو اور اس کی اصلاح کیلئے مستعد ہوجاؤ کسی کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو کہا گیا ہے کہ مراد اہل کتاب ہیں اور کہا گیا ہے کہ مراد غیر اہل کتاب ہیں، ابو ثعلبہ الخشنی کی حدیث کی وجہ سے، (ابو ثعلبہ نے فرمایا) کہ میں نے مذکورہ آیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا بھلی بات کا حکم کرو اور بری بات سے روکو، اور جب تم دیکھو کہ بخل کی پیروی کی جارہی ہے اور خواہشات کی اتباع کی جارہی ہے اور دنیا کو (دین) پر ترجیح دی جا رہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے میں مست ہے، تو تم اپنی فکر کرو، (اس کو حاکم وغیرہ نے روایت کیا ہے) تم سب کو اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے تو وہ تم کو وہ سب کچھ بتادے گا جو تم کیا کرتے تھے کہ وہ اس کی جزا دے گا، اے ایمان والو جب تم میں سے کسی کی موت آجائے یعنی اس کے اسباب ظاہر ہونے لگیں اور وصیت کرنے کا وقت ہو تو اس کے لئے شہادت کا (نصاب) یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو عادل آدمی گواہ بنائے جائیں، خبر بمعنی امر ہے، یعنی ان کو شہادت دینی چاہیے، اور شھادۃ کی اضافت بین کی جانب وسعت کی بناء پر ہے، اور حین اِذَا سے بدل ہے یا حَضَرَ کا ظرف ہے، اور اگر دوران سفر تم پر موت کی مصیبت آجائے تو تمہارے غیروں یعنی غیر مسلموں میں سے دو گواہ لے لئے جائیں، اگر تم (اے وارثو) ان دونوں کے بارے میں شک میں پڑجاؤ تو ان دونوں کو عصر کی نامز کے بعد روک لو (تحبسونھما) آخرانِ کی صفت ہے تو وہ اللہ کی قسم کھا کر کہہ دیں کہ ہم اللہ کی قسم کا عوض نہیں چاہتے کہ اس کے بدلے میں دینوی عوض لے لیں کہ ہم دنیا کے لئے قسم کھالیں یا اس کیلئے جھوٹی شہادت دیدیں، اگرچہ جن کے فائدے کیلئے قسم کھائی جا رہی ہے یا جن کے فائدہ کیلئے شہادت دی جارہی ہے ہمارے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اور نہ ہم اللہ کی شہادت کو چھپائیں گے جس کے ادا کرنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے، اگر ہم نے چھپایا تو ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے، پس اگر ان کے قسم کھانے کے بعد (کسی طرح) یہ سراغ لگ جائے کہ وہ دونوں گناہ کے مستحق ہوئے ہیں یعنی انہوں نے ایسے فعل کا ارتکاب کیا ہو جو خیانت کو یا کذب فی الشہادتین کو واجب کرے بایں طور کہ مثلاً وہ چیز جس کے بارے میں ان کو اتہام لگایا گیا ہے وہ ان کے پاس سے برآمد ہو، اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ انہوں نے میت سے یہ چیز خریدی ہے یا میت نے ان کیلئے اس کی وصیت کی ہے تو دوسرے دو گواہ جو ان دونوں کے قائم مقام ہوں یمین کو ان کی طرف متوجہ کرنے میں ان لوگوں کی جانب سے کہ جو وصیت کے مستحق قرار پائے ہیں اولین، آخر ان سے بدل ہے اور وہ ورثاء ہیں جو میت کے اولیا یعنی میت کے رشتہ دار ہیں اور ایک قراءت میں اَوَّلِین اول کی جمع ہے الذین کی صفت یا بدل ہے تو وہ شاہدین کی خیانت پر اللہ کی قسم کھائیں، اور کہیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے راست تر ہے اور ہم نے قسم میں حق سے تجاوز نہیں کیا ہے، بیشک ہم اس وقت ظالموں میں شمار ہوں گے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اَشیاءَ ، اَشیَاءُ کی اصل شَیْئاءُ تھی بروزن فَعْلاءُ ، کحمراء، کہ عرب کے نزدیک دو ہمزوں کے درمیان الف ثقیل النطق ہے جس کی وجہ سے پہلے ہمزہ کو جو کہ لام کلمہ ہے قلب مکانی کرکے شین سے مقدم کردیا اب اس کا وزن اشیاء بروزن لفعاء ہوگیا اب یہ الف تانیث ممدود کی وجہ سے غیر منصرف ہوگیا۔ (اعراب القرآن) قولہ : ان تَسْئَلُوا عنھا حین یُنَزّلُ القرآنُ تُبْدَلکم، اِن حرف شرط، تسئلوا فعل شرط عنھا، تسئلوا کے متعلق، ھا ضمیر ما سبق میں مذکور اشیاء کی طرف راجع ہے حین ینزل القرآن، تسئلوا کا ظرف ہے اور تُبْدَلکم جواب شرط ہے۔ قولہ : اَلْمَعْنی اِذَا سَئَلْتُم الخ، مفسر علام کا مقصد اس عبارت کے اضافہ سے یہ بتانا ہے کہ یہاں دو شرطیہ جملے اور نہی ہیں، دراصل نہی جو کہ مقدم ہے دونوں جملوں سے مؤخر ہونی چاہیے، اور دونوں شرطیہ جملوں میں پہلا جملہ مؤخر اور ثانیہ مقدم ہونا چاہیے، نہی کو مع اس کے نتیجے کے اہتمام زجر کی وجہ سے مقدم کردیا گیا اور یہ تقدیم و تاخیر باعتبار معنی کے ہے اسلئے کہ واؤ ترتیب کا تقاضہ نہیں کرتا۔ قولہ : اذا سَئَلْتُم عن اَشْیَاءَ ، یہ جملہ ثانیہ کے معنی ہیں اور متیٰ اَبدأھا سائتکم یہ جملہ اولی کے معنی ہیں۔ قولہ : فلا تَسْئَلُوا عَنْھَا یہ معنی نہی ہیں۔ قولہ : اِذَا سَئَلْتُمْ عَنْ اَشْیَاءَ مبتداء ہے یُنَزَّلُ القرآنُ عن اِبْدائِھا اس کی جزا ہے۔ قولہ : عن مَسْئَلَتِلُم اس میں اشارہ ہے کہ عنھا کی ضمیر مسئلۃ کی طرف لوٹ رہی ہے جو یسئلون سے مفہوم ہے۔ قولہ : شَرَعَ ، جَعَلَ کی تفسیر شرع سے اشارہ کردیا کہ جَعَلَ ، شَرَعَ کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے متعدی بیک مفعول ہے اور وہ بحیرۃ ہے من زائدہ ہے۔ قولہ : بَحِیْرَۃ، باء کے فتحہ اور حاء کے کسرہ کے ساتھ بروزن فعیلۃ بمعنی مفعولۃ اس کے آخر میں تاء غیر قیاسی طور لاحق ہوئی ہے اسلئے کہ اس کو وصفیت سے اسمیت کی طرف منتقل کیا ہے جس کی وجہ سے بمنزلہ جامد کے ہوگیا، بحیرہ کی تعریف میں علماء کا بہت اختلاف ہے منجملہ ایک قول یہ ہے کہ جو قوی تر ہے جب اونٹنی پانچ مرتبہ بچہ جنتی تھی اور پانچواں بچہ نر ہوتا تو اس کا کان چیر کر اپنے بتوں کے نام پر آزاد کردیتے تھے اور اس پر بار برداری اور سواری کرنا حرام سمجھتے تھے، اور کوئی شخص اس کو گھاس پانی سے نہیں روکتا تھا۔ (اعراب القرآن للدرویش) قولہ : سَائِبَۃ، یہ ساب یسیب سے اسم فاعل ہے آزاد کرنا، اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ زمانہ جاہلیت میں اسطرح نذر مانتے تھے، مثلاً ، اگر میں سفر سے صحیح سلامت واپس آگیا یا میں مرض سے شفایاب ہوگیا تو میری اونٹنی آزاد ہے، اس طریقہ پر چھوڑی ہوئی اونٹنی کو سائبہ کہا جاتا تھا۔ (اعراب القرآن ایضاً ) قولہ : البر بقتح الباء والکاف جو ان اونٹنی تَبَکَّرَ فی اول نتاج الابل بالانثی ای تَلدَ فی اول مرۃ بالانثیٰ ، وہ نوجواب اونٹنی جس نے پہلا بچہ مادہ جنا ہو۔ قولہ : وَصِیْلہ، وہ نوجوان اونٹنی جس کے پہلے حمل میں مادہ بچہ پیدا ہوا ہو، اور دوسری مرتبہ بھی مادہ بچہ جنے تسلسل کے ساتھ چونکہ مادہ بچے جنے اسلئے اس اونٹنی کو وصیلہ کہتے ہیں ایسی اونٹنی کو عرب بتوں کے نام پر آزاد کردیتے تھے، اور اس سے کسی قسم کی خدمت نہیں لیتے تھے۔ قولہ : حام، حمیٰ یحمی حَمْیًا وحِمَایَۃً روکنا سے اسم فاعل، اِذَا مُنِعَ بعض حضرات نے کہا ہے کہ حام وہ اونٹ جس کی پشت سے دس بچے پیدا ہوئے ہوں، گویا کہ اس کی پشت بار برداری اور سواری سے محفوظ ہوگئی ای لا یرکب ولایحملُ ولا یمنع من ماء لامرعی۔ قولہ : واِضَافَۃُ شَھَادَۃ لِبَین علی الاتِّسَاعِ یعنی ظرف کو قائم مقام فاعل کے اتساعاً کردیا گیا ہے، لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ مصدر فاعل یا مفعول کی جانب مضاف ہوتا ہے۔ تفسیر و تشریح شان نزول : یآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاتسئلوا عن اشیاء (الآیۃ) ، اس آیت میں فرضی اور دوراز مقصد سوالات کرنے سے منع کیا گیا ہے، مذکورہ آیت کے شان نزول کے بارے میں صحیح ترین روایت وہ ہے جو ابوہریرہ ، انس بن مالک نے روایت کی ہے، ” آپ ﷺ ایک روز “ اپنے گھر سے نکلے اور مسجد میں تشریف فرما ہوئے صحابہ کرام آپ ﷺ کے اطراف میں جمع ہوگئے، آپ ﷺ نے فرمایا جس کو جو سوال کرنا ہے کرے، تو ایک صاحب کھڑے ہوئے اور سوال کیا یا رسول اللہ میرا اصل باپ کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے، ایک دوسرے صاحب کھڑے ہوئے سوال کیا کہ میرے والد کہاں ہیں آپ نے فرمایا دوزخ میں، قفال نے فرمایا کہ اہل کتاب نے مومنین سے کہا تھا کہ تم اپنے بنی سے یہ سوال کرو اور وہ سب سوالات فرضی تھے تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ دوسرا واقعہ : مسلم کی روایت کے مطابق مذکور آیت کے شان نزول کا یہ واقعہ مذکور ہوا ہے، جب حج کی فرضیت نازل ہوئی تو۔۔ بن حابس ؓ نے آپ سے سوال کیا، کیا ہر سال ہمارے ذمہ حج فرض ہے ؟ آپ نے سکوت فرمایا تو مکرروہی سوال کیا آپ پھر بھی خاموش رہے جب تیسری مرتبہ وہی سوال کیا تو آپ نے عتاب کے لہجہ میں فرمایا، اگر میں تمہارے سوال کا جواب میں ہاں کہہ دیتا تو ایسا ہی ہوجاتا اور پھر اس کو پورا نہ کرسکتے، اسکے بعد فرمایا ” جب چیزوں کے بارے میں تم کو کوئی حکم نہ دوں تو ان کو اسی طرح رہنے دو ، ان کی کھود کرید کرکے سوالات نہ کرو، تمہارے سے پہلے بعض امتیں اسی کثرت سوالات کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں آپ ﷺ کا کثرت سے سوال سے منع فرمانا : خود نبی ﷺ بھی صحابہ کو کثرت سوال سے منع فرماتے تھے، آپ نے فرمایا ” اِنَّ اعظم المسلمین فی المسلمین جرماً مَن سَأل عَن شئ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسئلتہٖ “ ، مسلمانوں میں سے سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جو لوگوں پر حرام نہیں کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال کی وجہ سے وہ چیز حرام کردی گئی۔ (بخاری، مسلم) کس قسم کے سوالات سے ممانعت ہے ؟ ایسے سوالات سے منع کیا گیا ہے جو سراسر فضول ہوں نہ ان سے کوئی دینی معاملہ متعلق اور نہ دنیوی ضرورت، یا مثلاً لوگوں کی جزئیات زندگی سے سوالات کرنا، البتہ معاشی یا معادی واقعی ضرورت پیش آجائے یا پیش آنے کا قوی احتمال ہو تو ایسے سوالات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، دور دور کے احتمالات پیدا کرکے محض سوال برائے سوال کرنا، اپنے دل سے گھڑ کر محض امتحان یا ضیق میں ڈالنے کیلئے فرضی سوالات کرنا منع ہے یہاں ایسے ہی سوالات سے ممانعت کی جارہی ہے۔ مسند سعید بن منصور اور تفسیر اب جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ مذکورہ آیت میں جو بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کا ذکر ہے، ان کے بارے میں بعض صحابہ نے آپ ﷺ سے سوال کیا تھا جس کے جواب میں مذکورہ آیت نازل ہوئی تھی، حاصل آیت کا یہ ہے کہ ملت ابراہیمی میں اللہ نے ان جانوروں کو حرام نہیں ٹھہرایا قریش میں یہ رسم عمرو بن عامر خزاعی کی ایجاد کردہ ہے، صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ان جانوروں کو حرام کرنے کی رسم قریش میں عمر و بن عامر نے جاری کی اور آپ نے یہ فرمایا کہ میں نے اس کو دوزخ میں دیکھا اس کی انتڑیاں دوزخ کی آگ میں نکلی ہوئی پڑی تھیں اور وہ ان کو کھینچتا ہوا پھر رہا تھا، اور جل رہا تھا۔ (احسن التفاسیر) اپنی اصلاح پر اکتفاء کافی نہیں : بعض لوگوں کو یایھا الذین آمنوا علیکم انفسکم لایضرکم من ضَلَّ الخ کے ظاہری الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو کافی ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضروری نہیں، لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے اس لئے کہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے، اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کر دے گا، تو اس کا تارک ہدایت پر قائم رہنے والا کہاں رہے گا ؟ جبکہ قرآن نے اِذَا اھتدیتم کی شرط عائد کی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق کے علم میں یہ بات آئی تو فرمایا اے لوگو تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جب لوگ برائی ہوتے دیکھیں اور اس کی اصلاح کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ ان کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے (مسند احمد، ترمذی) اس لئے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لئے یہ نقصان دہ نہیں جبکہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے مجتنب ہو اگر عملی یا لسانی طور پر لوگوں کو برائی سے باز رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے برا سمجھنا ایمان کا آخری درجہ ہے۔
Top