Tafseer-e-Jalalain - Al-Furqaan : 11
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَ : اور اِلٰي : طرف مَدْيَنَ : مدین اَخَاهُمْ : ان کے بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : نہیں تمہارا مِّنْ : سے اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق پہنچ چکی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : ایک دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَوْفُوا : پس پورا کرو الْكَيْلَ : ناپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی اشیا وَلَا تُفْسِدُوْا : اور فساد نہ مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شیعب کو بھیجا تو انہوں نے کہا اے قوم ! خدا کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک نشانی آچکی ہے۔ تو تم ناپ اور تول پورا کیا کرو اور لوگوں کی چیزیں پوری دیا کرو اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے
آیت نمبر 85 تا 87 ترجمہ : اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا، انہوں نے کہا اے میری قوم، تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تمہارے پاس میری صداقت کی تمہارے پروردگار کی طرف سے معجزہ کی شکل میں واضح دلیل آچکی ہے تم ناپ تول پوری پوری کیا کرو لوگوں کو چیزیں کم مت دیا کرو، اور رسولوں کو بھیج کر زمین کی اصلاح کے بعد کفر و معاصی کے ذریعہ زمین میں فساد برپا نہ کرو اسی مذکور میں تمہارے لئے خیر ہے اگر تمہارا ایمان کا ارادہ ہے تو اس کی طرف جلدی کرو اور تم راستوں پر اسلئے نہ بیٹھا کرو کہ لوگوں کو ان کے کپڑے چھین کر یا ان سے ٹیکس وصول کرے خوف زدہ کرو اور اللہ کے دین پر یقین رکھنے والوں کو قتل کی دھمکی دے کر اللہ کے دین سے روکو اور اس راستہ میں کجی تلاش کرو، وہ زمانہ یاد کرو جب تم تھوڑے سے تھے اللہ نے تمہیں بہت کردیا، اور آنکھیں کھول کر دیکھو کہ تم سے پہلے رسولوں کی تکذیب کرکے فساد برپا کرنے والوں کا کیا حشر ہوا یعنی ان کا انجام ہلاکت ہوا، اور اگر ایک گروہ تم میں اس پر جس کو میں دیکر بھیجا گیا ہوں ایمان لایا ہے اور ایک گروہ ایمان نہیں لایا تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ حق پرستوں کو نجات دے کر اور باطل پرستوں کو ہلاک کرکے ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دے، وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : مدین، یا مدیان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری بیوی قطور اسے ابراہیم (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں یہ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں اسلئے کہ بنی اسرائیل کا سلسلہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے یعقوب بن اسحقٰ سے ہے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا ایک نام اسرائیل بھی تھا اس لئے ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی، مدین ایک بستی کا نام ہے اور مدیان کی اولاد بھی بنی مدین کہلائی حضرت شعیب (علیہ السلام) کا تعلق بھی اسی قوم سے ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خسر تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے ہجرت کرکے مدین پہنچ کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کے یہاں قیام کیا اور دس سال کا عرصہ یہیں گزارا، اسی دوران حضرت شعیب (علیہ السلام) کی صاحبزادی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شادی ہوئی۔ قولہ : مُرِیْدِی الِایمَانِ ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : حضرت شعیب (علیہ السلام) کے مخاطب مومن نہیں تھے تو ان کو ان کنتم مومنین ماضی کے صیغہ سے کیوں خطاب کیا۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے چونکہ حرف شرط بھی صیغہ ماضی کو ماضی سے نہیں نکال سکتا اس لئے مریدی، کا لفظ مقدر ماننا پڑا تاکہ معنی درست ہوجائیں، مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارا ایمان لانے کا ارادہ ہے تو مذکورہ کاموں سے باز آجاؤ۔ قولہ : فَبَادِرُوْا الیہ اس میں اشارہ ہے کہ ان کنتم مؤمنین شرط کی جزاء، محذوف ہے نہ کہ ماقبل کا جملہ جزاء ہے (ترویح الارواح) قولہ : المکس، خراج، ٹیکس، عشر، المکّاس، العشار، عشر وصول کرنے والا۔ تفسیر و تشریح مدین کی مختصر تاریخ : انبیاء (علیہم السلام) کے قصص کا سلسلہ سابقہ آیات سے چل رہا ہے یہ پانچواں قصہ ہے، یہ قصہ حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ہے۔ مدین کا اصل علاقہ حجاز سے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا، اہل مدین کا تعلق سلسلہ بنی اسرائیل سے نہیں ہے اہل مدین دراصل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صاحبزادے مدین کی اولاد میں سے ہیں، عرب کے دستور کے مطابق جو لوگ کسی بڑے شخص کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوتے وہ اسی کی طرف منسوب ہو کر بنی فلاں کہلاتے تھے، اس دستور کے مطابق عرب کا بڑا حصہ بنی اسماعیل کہلایا، اور اولاد یعقوب کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہونے والے لوگ بنی اسرائیل کہلائے، اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے صاحبزادے مدین کے زیر اثر آنیوالے لوگ بنی مدین کہلائے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بعثت : حضرت شعیب (علیہ السلام) جس قوم کی جانب مبعوث کئے گئے تھے قرآن کریم نے کہیں ان کو ” اہل مدین “ اور کہیں ” اصحاب مدین “ کے نام سے ذکر کیا ہے، اور کہیں ” اصحاب ایکہ “ کے نام سے، ایکہ کے معنی جنگل اور بن کے آتے ہیں، بعض مفسرین حضرات نے فرمایا کہ یہ دونوں قومیں الگ الگ تھیں اور دونوں کی بستیاں بھی الگ الگ تھیں حضرت شعیب (علیہ السلام) پہلے ایک بستی کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اس قوم کی ہلاکت کے بعد دوسری قوم کی طرف مبعوث ہوئے، دونوں قوموں پر جو عذاب آیا اس کے الفاظ بھی مختلف ہیں اصحاب مدین پر کہیں ” صیحۃ “ اور کہیں ” رجفۃ “ کا عذاب مذکور ہے اور اصحاب ایکہ پر ” ظلہ “ کے عذاب کا ذکر ہے، اور بعض مفسرین نے فرمایا کہا صحاب مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قوم کے نام ہیں مذکورہ تینوں قسم کے عذاب اس قوم میں جمع ہوگئے تھے، پہلے بادل سے آگ برسی پھر اس کے ساتھ سخت آواز چنگھاڑ کی شکل میں آئی پھر زمین میں زلزلہ آیا۔ (ابن کثیر، معارف) قوم شعیب اور ان کی بد کرداری : قوم شعیب کی ایک بری خصلت یہ تھی کہ راستوں پر چوراہوں پر جمع ہو کر بیٹھ جاتے اور مسافروں کو لوٹتے اور لوگوں کو ڈرا دھمکا کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس جانے سے روکتے، راستوں پر بیٹھ کر لوٹ کھسوٹ کرتے بعض مفسرین نے خلاف شرع چنگی اور ٹیکس وغیرہ وصول کرنے کو بھی داخل کیا ہے۔ علامہ قرطبی نے فرمایا جو لوگ راستوں پر بیٹھ کرنا جائز چنگی وصول کرتے ہیں وہ بھی قوم شعیب (علیہ السلام) کی طرح مجرم ہیں۔
Top