Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے فِيْ : میں قَرْيَةٍ : کسی بستی مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّآ : مگر اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اَهْلَهَا : وہاں کے لوگ بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَضَّرَّعُوْنَ : عاجزی کریں
اور ہم نے کسی شہر میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو جو ایمان نہ لائے دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں۔
آیت نمبر 94 تا 99 ترجمہ : اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور انہوں نے اس کی تکذیب ہو مگر یہ کہ ہم نے اس بستی کے رہنے والوں کو فقر کی سختی اور مرض کی تکلیف میں نہ پکڑا ہوتا کہ وہ عاجزی کرنے لگیں اور ایمان لے آئیں، پھر ہم نے ان کی بدحالی عذاب کو خوشحالی غنیٰ اور صحت سے بدل دیا یہاں تک کہ ان کو خوب ترقی ہوئی (یعنی ان کی جان و مال میں کثرت ہوئی) اور نعمت کی ناشکری کرتے ہوئے کہنے لگے جس طرح ہم پر آئے ہیں ہمارے اسلاف پر بھی اچھے برے دن آتے ہی رہے ہیں زمانہ کا یہی دستور ہے، یہ اللہ کی جانب سے سزا نہیں ہے لہٰذا جس مذہب پر تم ہو اسی پر قائم رہو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تو ہم نے ان کو دفعۃً پکڑ لیا ان کو پہلے سے اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی اور اگر تکذیب کرنے والے بستی کے لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آتے اور کفر و معاصی سے اجتناب کرتے تو ہم ان پر آسمان کے بارش کی صورت میں اور زمین کے نباتات (روئیدگی) کی شکل میں برکتوں کے دروازے کھول دیتے (لفتحنا) تخفیف و تشدید کے ساتھ ہے، مگر انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کو گرفت میں لے لیا، کیا پھر بھی ان بستیوں کے تکذیب کرنے والے باشندے اس بات سے مامون ہوگئے کہ ہمارا عذاب ان پر رات میں آجائے کہ وہ سوئے ہوں (یعنی) غافل ہوں اور کیا ان بستیوں کے باشندے اس بات سے بےفکر ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آجائے جبکہ وہ کھیلوں میں مشغول ہوں کیا یہ لوگ اللہ کی چال (یعنی) نعمت کے ذریعہ بتدریج پکڑ اور اچانک پکڑ سے بےخوف ہوگئے ہیں، سو اللہ کی چال سے بجز اس کے کوئی بےخوف نہیں ہوا کہ جس کی شامت آگئی ہو۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَمَا اَرْسَلْنَا فِی قَرْیَۃٍ ، یہ جملہ مستانفہ ہے، مخصوص امتوں کے واقعات بیان کرنے کے بعد یہاں سے اللہ کی عام عادت اور عام دستور کو بیان کیا جار ہا ہے۔ قولہ : یضَّرَّعون، یہ اصل میں تاء کو ضاد سے بدل کر ضاد کو ضاد میں ادغام کردیا، یضَرَّعون ہوگیا۔ قولہ : اِسْتِدْرَاجَہٗ ایاھم استدْراج کسی کان کو بتدریج کرنا، مکر کے معنی دھوکا، فریب کے ہیں اللہ کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں ہے یہاں مکر سے استدراج بالاستعارہ مراد ہے یعنی بتدریج نعمت و صحت کے ذریعہ ڈھیل دیکر گرفت میں لینا کہ گرفتہ کو احساس نہ ہو۔ قولہ : عَفَوْا، (ن) سے عَفُوٌّ، بڑھانا ماضی جمع مذکر غائب، اس کے معنی کم ہونے کے بھی آتے ہیں یہ اضداد میں سے ہے عفَوْا، کثروا نموا فی انفسھم واموالھم، یقال عفا النبات، وعفا الشحم والوبر اذا کثرت ویقال، عفا، کثر، وعفا، درسَ ھو من اسماء الاضداد۔ (اعراب القرآن للدریش) ۔ قولہ : الباس اور بؤسٌ فقر و فاقہ، ضرَّ اور ضرّاء، جسمانی تکلیف، مرض، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے یہی معنی منقول ہیں۔ تفسیر و تشریح سابقہ آیات میں پانچ حضرات انبیاء کے واقعات کا بیان ہوا ہے، قرآن کریم کا مقصد واقعات بیان کرنے سے کچھ قصہ خوانی نہیں ہوتا بلکہ واقعہ سے جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کو عبدت و نصیحت کیلئے بیان کرنا ہوتا ہے، سابق میں ایک ایک نبی کا الگ الگ واقعہ اور اس کا نتیجہ بیان کرنے کے بعد اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے وہ یہ کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کیلئے سازگار بنانے کیلئے تنبیہات و ترغیبات سے کام لیا گیا یعنی ان کو فقر و قافہ نیز مصائب و آفات، میں مبتلا کیا گیا، تاکہ ان کا دل نرم پڑے اور شیخی وتکبر سے اکڑی ہوئی گردنیں کچھ نرم پڑیں، ان کا غرور طاقت اور نشہ دولت دور ہو، جب اس سازگار ماحول میں بھی ان کا دل قبول حق کی طرف مائل نہیں ہوتا، تو ان کو خوشحالی کے فتنہ میں گرفتار کیا جاتا ہے یہیں سے ان کی بربادی کی تمہید شروع ہوتی ہے، ان کی تنگدستی کو فراخ دستی سے بدحالی کو خوشحالی سے بیماری کو صحت و عافیت سے بدل دیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کریں، مگر جب وہ نعمتوں سے مالا مال ہونے لگتی ہے تو اپنے برے دن بھول جاتی ہے اور ان کے کج فہم رہنما تاریخ کا یہ احمقانہ تصور ذہن میں بٹھا دیتے ہیں کہ حالات کا اتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ بگاڑ کسی قادر و حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ خارجی اور داخلی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی برے دن آتے ہی رہتے ہیں، لہٰذا مصائب و آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کرکے خدا کے آگے زاری و تضرع کرنے لگنا بجز ایک طرح کی نفسیانی کمزوری کے کچھ نہیں یہی وہ احمقانہ ذہنیت ہے جس کا نقشہ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں کھینا ہے، لایزال البلاء بالمؤمن حتی یخرج نقیاً من ذنوبہٖ ، والمنافق مَثَلہٗ کمثل الحمار لایدری فیما رَبَطَہٗ اھلہ ولا فیمَ اَرْسلوہُ ، (ترمذی کتاب الزھد ماجاء فی الصبر علی البلاء المستدرک للحاکم 497) ، یعنی مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ صاف ہو کر نکلتا ہے لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے کھول دیا، پس جب کسی قوم کا حال یہ ہوتا ہے کہ نہ مصائب سے اس کا دل خدا کے آگے جھکتا ہے اور نہ نعمتوں پر وہ شکر گزار ہوتی ہے تو ایسی قوم کسی حال میں اصلاح قبول نہیں کرتی ہے۔ آپ کے زمانہ کے حالات اور سورة اعراف : یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس ضابطہ کا ذکر فرمایا ہے ٹھیک یہی ضابطہ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے موقع پر بھی برتا گیا، اور شامت زدہ قوموں کے جس طرز عمل کی طرف اشار فرمایا گیا ہے ٹھیک وہی طرز عمل سورة اعراف کے نزول کے زمانہ میں اہل مکہ سے ظاہر ہو رہا تھا، حدیث میں عبد اللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن عباس ؓ دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت کے بعد جب قریش کے لوگوں نے آپ کی دعوت کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو آپ ﷺ نے دعاء کی کہ خدایا، یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں جیسا ھفت سالہ قحط پڑا تھا ویسے ہی قحط سے ان لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد فرما چناچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سخت قحط میں مبتلا کردیا، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ مردار کھانے لگے چمڑے ہڈیاں تک کھا گئے آخر کار مکہ کے لوگوں نے جن میں ابوسفیان پیش پیش تھا حضور ﷺ سے درخواست کی کہ ہمارے لئے خدا سے دعاء کیجئے، آپ نے دعاء فرمائی اور آپ کی دعاء کی برکت سے اللہ نے وہ برا وقت ٹال دیا اور بھلے دن آئے تو ان لوگوں کی گردنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں، اور جن کے دل کچھ پسیج گئے تھے ان کو بھی اشرار قوم نے یہ کہہ کر ایمان سے روکنا شروع کردیا کہ میاں یہ تو زمانہ کا اتار چڑھاؤ ہے پہلے بھی آخر قحط آتے ہی تھے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس مرتبہ ذرا لمبا قحط پڑگیا لہٰذا ان چیزوں سے دھوکا کگا کر محمد ﷺ کے پھندے میں نہ پھنس جانا یہ باتیں اس زمانہ میں ہو رہی تھیں جب سورة اعراف نازل ہو رہی تھی، اس لئے قرآن مجید کی یہ آیات ٹھیک اپنے موقع پر چسپاں ہیں۔
Top