Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تَتَّقُوا : تم ڈروگے اللّٰهَ : اللہ يَجْعَلْ : وہ بنادے گا لَّكُمْ : تمہارے لیے فُرْقَانًا : فرقان وَّيُكَفِّرْ : اور دور کردے گا عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہاری برائیاں وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخشدے گا تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِيْمِ : بڑا
مومنو ! اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دے گا (یعنی تم کو ممتاز کر دے گا) اور تمہارے گناہ مٹا دیگا اور تمہیں بخش دے گا۔ اور خدا بڑے فضل والا ہے۔
آیت نمبر 29 تا 37 اور حضرت ابولبابہ بن عبدالمنذر کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ترجمہ : اے ایمان والو ! اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو تمہارے اور اس چیز کے درمیان جس سے تم خوف رکھتے ہو ایک فیصلے کی چیز عطا کرے گا تو تم نجات پاؤ گے، اور تم سے تمہارے گناہ دور کردے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اللہ بڑے فضل والا ہے اور اے محمد وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کافر تمہارے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے اور آپ کے بارے میں مشورہ کے لئے دارالندوہ میں جمع ہوئے تھے، تاکہ تمہیں قید کریں، یعنی آپ کو باندھ لیں اور محبوس کرلیں، یا سب مل کر آپ کو قتل کردیں یعنی متحد ہو کر ایک قاتل کے آپ کو قتل کردیں، یا مکہ سے آپ کو نکل دیں، وہ تو آپ کے بارے میں تدبیر کررہے تھے، اور اللہ آپ کے معاملہ میں ان کے ساتھ تدبیر کررہا تھا بایں صورت کہ اس نے بذریعہ وحی ان کی تدبیر کی آپ کو خبر دیدی اور آپ کو (مکہ سے) نکلنے کی اجازت دیدی، اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے (یعنی) تدبیر کے بارے میں ان سے زیادہ جاننے والا ہے، جب ان کو ہماری آیتیں قرآن سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے ہاں سن لیا ہم نے، اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسی ہی باتیں بنا کر لاسکتے ہیں، یہ بات نضربن حارث نے کہی تھی، چونکہ وہ تجارت کے سلسلہ میں حیَرہ جایا کرتا تھا اور عجمیوں کی تاریخ کی کتابیں خرید لاتا تھا، اور وہ اہل مکہ کو سنایا کرتا تھا، یہ قرآن محض پہلے لوگوں کی من گھڑت کہانیاں ہیں (اور وہ بات بھی یاد رہے) جو انہوں نے کہی تھی اے اللہ اگر یہ جس کو محمد پڑھتے ہیں آپ کے پاس سے نازل کردہ ہے تو اوپر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی درد ناک عذاب ہمارے اوپر لے آ یعنی اس کے انکار پر دردناک عذاب نازل کردے، یہ بات نضربن حارث یا کسی دوسرے نے استہزاء کہی یا یہ تاثر دینے کے لئے کہی کہ وہ علی وجہ البصیرت یہ بات کہہ رہا ہے یا قرآن کے بطلان کا یقین رکھتے ہوئے کہی (اس وقت تو) اللہ ان پر ان کا مطلوبہ عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ آپ ان کے درمیان موجود تھے اسلئے کہ عذاب جب نازل ہوتا ہے تو عمومی ہوتا ہے، اور کسی امت کو عذاب نہیں دیا گیا ان کے نبی اور مومنیں کو وہاں سے نکال کر، اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کررہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دیدے جبکہ وہ اپنے طواف کے دوران ہم تجھ سے مغفرت طلب کرتے ہیں ہم تجھ سے مغفرت طلب کرتے ہیں کہہ رہے ہوں اور کہا گیا ہے کہ مراد کمزور مومن ہیں جو ان میں رہ رہے تھے جیسا کہ اللہ نے فرمایا '' لو تَزیَّلُوا لَعَذّبنا الَّذِیْنَ کفروا منھم عذابًا الیماً '' یعنی اگر وہ وہاں سے ٹل گئے ہوتے تو ہم ان میں سے منکرین حق کو درد ناک عذاب دیتے، لیکن اب آپ کے اور ضعفاء مسلمین کے نکلنے کے بعد کیوں نہ ان کو اللہ تلوار کے ذریعہ عذاب کا مزا چکھائے اول قول (یعنی کفار کے حالت طواف میں استغفار کرنے کی صورت میں) یہ آیت ما قبل کی آیت کے لئے ناسخ ہے چناچہ (اہل مکہ کو) بدروغیرہ میں عذاب دیا گیا، جبکہ وہ نبی ﷺ اور مسلمان کو مسجد حرام میں طواف کرنے سے روک رہے ہیں حالانکہ وہ مسجد حرام کے (جائز) متولی نہیں ہیں، جیسا کہ ان کا دعوی ہے، اس کے (جائز) متولی تو صرف اہل تقویٰ ہی ہوسکتے ہیں، لیکن اکثر لوگ اس بات کو اس پر ولایت حاصل نہیں ہے نہیں جانتے بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز بس سیٹیاں بجانا اور تالیاں پٹنا ہے، یعنی اس عمل کو انہوں نے نماز کے قائم مقام کرلیا تھا جس کے وہ مامور تھے، لو اب بدر میں انکار حق کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو بلا شبہ یہ کافر اپنے مالوں کو نبی ﷺ سے لڑنے میں صرف کررہے ہیں تاکہ اللہ کے راستہ سے روکیں ابھی اور خرچ کریں گے پھر یہ انجام کار مال کے ضائع ہونے اور مقصد حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لئے ندامت ہوگی پھر وہ دنیا میں مغلوب کئے جائیں گے اور پھر یہ کافر آخرت میں جہنم کی طرف گھیر کر لائے جائیں گے، تاکہ اللہ کافر کر مومن سے ممتاز کردے (لیمیز) تخفیف اور تشدید کے ساتھ تکون کے متعلق ہے، اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر جمع کرے پھر اس پلندے کو جہنم میں پھینکدے یہی کو گ اصلی دیوالیے ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : بِدَارِ النَدْوَةِ ، دارالند وہ کر قریش کے جدا بعد قصی بن کلاب نے بنایا تھا۔ قولہ : بتَدْ بِیْرِاَ مْرِکَ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ یمکر اللہ، بطور مجاز مرسل کے استعمال ہوا ہے، مکر ذکر کے اسکار دمقصد ہے قولہ : وعلی القَوْلِ الاَ وَّلِ ھِیَ نَا سِخَة م لہٰذا آیت سابقہ اور لاحقہ میں اب کوئی تعارض نہیں۔ تفسیر وتشریح یٰا یّھا الَّذِیْنَ آمنو ان تتقوا اللہ، اس آیت میں سابقہ آیت کے مضمون کی تکمیل ہے اس کا مضمون یہ ہے جو شخص عقل کو طبعت پر غالب رکھ کر اس آزمائش میں ثابت قدم رہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و محبت کو سب چیزوں پر مقدم رکھے اسی کو قرآن و سنت کی اصلاح میں متقی کہتے ہیں اس آیت میں ایک لفظ فرقان آیا ہے، اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں مثلاً ایسی چیز سے حق و باطل کے درمیان فرق کیا جاسکے، مطلب یہ ہے کہ تقوے کی بدولت دل مضبوط، بصیرت تیز، جس سے انسان کو ہر ایسے موقع پر جب عام انسان التباس اور اشتباہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہوں صراط مستقیم کی توفیق مل جاتی ہے علاوہ ازیں فتح، نصرت، نجات، مخرج، ہدایت، کسوٹی، اور یہ سارے ہی معنی مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ تقوے سے یقینا یہ سارے معنی حاصل ہوسکتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ تکفیر سیئات، مغفرتِ ذنوب اور فضل عظیم بھی حاصل ہوتا ہے۔
Top