Mutaliya-e-Quran - Ibrahim : 44
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ١ؕ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
فَذَرْنِيْ : پس چھوڑدو مجھ کو وَمَنْ يُّكَذِّبُ : اور جو کوئی جھٹلاتا ہے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : عنقریب ہم آہستہ آہستہ کھینچیں گے ان کو مِّنْ حَيْثُ : جہاں سے لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے نہ ہوں گے
پس اے نبیؐ، تم اِس کلام کے جھٹلانے والوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو ہم ایسے طریقہ سے اِن کو بتدریج تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ اِن کو خبر بھی نہ ہوگی
[فَذَرْنِيْ : تو آپ چھوڑ دیں مجھ کو ][ وَمَنْ يُّكَذِّبُ : اور اس کو جو جھٹلاتا ہے ][ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ ۭ : اس بات (قرآن) کو ][سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : ہم بتدریج لے جائیں گے ان کو (خسران میں)][ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ : جہاں سے یہ لوگ جانتے نہیں ہیں ] نوٹ۔ 1: آیت۔ 44 ۔ میں ہے کہ آپ جھٹلانے والوں کو اور مجھے چھوڑ دیں۔ یہاں چھوڑنا ایک محاورہ کے طور پر فرمایا گیا ہے۔ مراد اس سے اللہ پر بھروسہ کرنا ہے۔ اور اس کا حاصل کلام یہ ہے کہ کفار کی طرف سے یہ مطالبہ بھی پیش ہوا کرتا تھا کہ اگر ہم واقعی اللہ کے مجرم ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب دینے پر قادر ہے تو پھر ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔ اس پر یہ فرمایا گیا کہ اپنی حکمت کو ہم خوب جانتے ہیں۔ ایک حد تک مہلت دیتے ہیں اور فوراً عذاب نہیں بھیج دیتے۔ پھر حضرت یونس کے واقعہ کا ذکر فرما کر آنحضرت ﷺ کو نصیحت فرمائی کہ آپ ان لوگوں کے ایسے مطالبہ سے مغلوب نہ ہوں اور ان پر جلدی عذاب نازل کرنے کے خواہشمند نہ ہوں۔ اپنی حکمتوں اور مصلحتوں کو ہم ہی جانتے ہیں۔ ہم پر توکل کریں۔ (معارف القرآن) بیخبر ی میں بتدریج کسی کو تباہی کی طرف لے جانے کی صورت یہ ہے کہ ایک حق کے دشمن اور ظالم کو دنیا میں نعمتوں سے نوازا جائے، صحت، مال، اور دنیوی کامیابیاں عطا کی جائیں۔ جن سے دھوکا کھا کر وہ سمجھے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں خوب کر رہا ہوں۔ اس طرح وہ ظلم و طغیان میں زیادہ سے زیادہ غرق ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ جو نعمتیں اسے مل رہی ہیں وہ انعام نہیں ہیں بلکہ اس کی ہلاکت کا سامان ہے۔ (تفہیم القرآن) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل ایمان میں سے کسی کو اگر اللہ تعالیٰ دنیوی کامیابیوں اور یہاں کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو یہ اس کا انعام ہیں۔ قرآن مجید میں کم از کم دو مقامات، الانفال۔ 28 ۔ اور التغابن۔ 15، میں براہ راست اہل ایمان کو خطاب کر کے خبردار کیا گیا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد یعنی دنیا کی نعمتیں فتنہ یعنی آزمائش ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جو ان آزمائشوں میں پورا اترے گا تو یہ دنیوی نعمتیں اس کی آخرت کی کامیابیوں اور انعام کا ذریعہ بن جائیں گی، ناکامی کی صورت میں یہی نعمتیں آخرت میں ناکامی اور خسارے کا باعث ہونگی۔ (مرتب)
Top