Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 39
وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ١ۚ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَقَاتِلُوْهُمْ : اور ان سے جنگ کرو حَتّٰي : یہانتک لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین كُلُّهٗ : سب لِلّٰهِ : اللہ کا فَاِنِ : پھر اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِمَا : جو وہ يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی کفر کا فساد) باقی نہ رہے اور دین سب خدا ہی کا ہوجائے۔ اور اگر باز آجائیں تو خدا ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
وَقاتلو ھم حَتّٰی لا تکون فتنة ویکونَ الدین کُلُّہ للہ، اس آیت کے دو جزء ہیں ایک سلبی اور دوسرا ایجابی، سلبی جزء تو یہ ہے کہ فتنہ باقی نہ رہے اور ایجابی جزء یہ ہے کہ دین مکمل طور پر اللہ کا ہوجائے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں قتال وجدال کی اجازت صرف ان ہی دو مقاصد کیلئے ہے دوسرے کسی مقصد کے لئے اجازت نہیں ہے۔ اس آیت میں دو لفظ قابل غور ہیں ایک لفظ فتنہ دوسرا لفظ دین، عربی لغت کے اعتبار سے یہ دونوں لفظ متعدد معنی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ائمہ تفسیر صحابہ وتابعین سے اس جگہ فتنہ کے دو معنی منقول ہیں ایک یہ کہ فتنہ سے مراد شرک و کفر اور دین سے مراد اسلام لیا جائے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہی تفسیر منقول ہے اس تفسیر پر آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ مسلمانوں کو کفار سے اس وقت تک قتال کرنا چاہیے جب تک کہ کفر ختم ہو کر اس کی جگہ اسلام یہ آجائے، اس صورت میں یہ حکم صرف اہل مکہ اور اہل عرب کے لئے مخصوص ہوگا دوسری تفسیر جو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ وغیرہ سے منقول ہے وہ یہ ہے کہ فتنہ سے مراد اس جگہ وہ ایذاء اور مصیبت ہے کس کا سلسلہ کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر ہمیشہ جاری رہا تھا، جب تک وہ مکہ میں تھے تو ہر وقت ان کے نرغہ میں پھنسے رہتے تھے حتی کہ مدینہ طیبہ آنے کے بعد بھی ان کے خوف نے پیچھا نہ چھوڑا اور بار بار مدینہ پر حملہ آور ہونے کے منصوبے بنائے اور ان کو عملی جامہ پہنایا حتی کہ مسلمان خطرہ کے پیش نظر رات کو ہتھیار بند ہوتے تھے، اس کے مقابل دین کے معنی قہر و غلبہ کے ہیں، اس صورت میں آیت کی تفسیر یہ ہوگی کہ مسلمانوں کو کفار سے اس وقت تک قتال کرتے رہنا چاہیے جب تک کہ مسلمان مظالم سے محفوظ نہ ہوجائیں، اور دین اسلام کا غلبہ نہ ہوجائے، کہ وہ غیروں کے مظالم سے مسلمانوں کی حفاظت کرسکے۔
Top