Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 56
وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ١ؕ وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ
وَيَحْلِفُوْنَ : اور قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَمِنْكُمْ : البتہ تم میں سے وَمَا : حالانکہ نہیں هُمْ : وہ مِّنْكُمْ : تم میں سے وَلٰكِنَّهُمْ : اور لیکن وہ قَوْمٌ : لوگ يَّفْرَقُوْنَ : ڈرتے ہیں
اور خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہیں میں سے ہیں۔ حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں اصل یہ ہے کہ یہ ڈرپوک لوگ ہیں۔
شان نزول : ویحلفون باللہ اِنَّھم لمنکم، مدینہ میں منافقین زیادہ تر مالدار اور سن رسیدہ تھے ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں ان کی فہرست دی ہے اس میں صرف ایک نوجوان کا ذکر ملتا ہے یہ لوگ مدینہ میں جائداد اور پھیلے ہوئے کاروبار رکھتے تھے اور جہاندیدگی نے ان کو مصلحت اندیش اور موقع پرست بنادیا تھا اسلام جب مدینہ پہنچا تو آبادی کے ایک بڑے حصہ نے پورے اخلاص اور ایمانی جوش کے ساتھ قبول کرلیا تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو ایک عجیب مخمصہ میں مبتلا پایا، انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف تو خود ان کے قبیلے کی اکثریت بلکہ خود ان کے بیٹوں اور بیٹیوں تک کو ایمان کے نشہ نے سرشار کردیا ہے، ان کے خلاف اگر یہ کفر و انکار پر قائم رہتے ہیں تو ان کی یہ ریاست، عزت، شہرت سب خاک میں مل جاتی ہے دوسری طرف اس دین کا ساتھ دینے کے یہ معنی ہیں کہ وہ سارے عرب بلکہ اطراف ونواح کی قوموں اور سلطنتوں سے بھی لڑائی مول لینے کے لئے تیار رہیں، اس لئے انہیں اپنے مفاد کے تحفظ کی بہترین صورت یہی نظر آئی کہ ایمان کا دعویٰ کریں اور ظاہری طور پر اسلام میں داخل ہوجائیں، تاکہ اپنی قوم میں اپنی ظاہری عزت اور اپنے کاروبار کو برقرار رکھ سکیں مگر مخلصانہ ایمان نہ اختیار کریں تاکہ ان خطرات ونقصانات سے دو چار نہ ہوں جو اخلاص کی راہ اختیار کرنے سے لازماً پیش آنے تھے، ان کی اسی ذہنی کیفیت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت میں یہ لوگ تمہارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ نقصانات کے خوف نے انہیں زبردستی تمہارے ساتھ باندھ دیا ہے جو چیز ان کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے کو مسلمان کہیں وہ صرف یہ خوف ہے کہ مدینہ میں رہتے ہوئے علانیہ غیرم مسلم بن کر رہیں تو ان کی جاہ ومنزلت ختم ہوجاتی ہے۔
Top