Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 55
فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
فَلَا تُعْجِبْكَ : سو تمہیں تعجب نہ ہو اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُهُمْ : ان کی اولاد اِنَّمَا : یہی يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ عذاب دے انہیں بِهَا : اس سے فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : اور وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
تم ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کرنا۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں انکو عذاب دے۔ اور (جب) ان کی جان نکلے تو ( اس وقت بھی) وہ کافر ہی ہوں۔
فلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم الخ اس مال و دولت کی محبت کی میں گرفتار ہو کر جو منافقانہ رویہ انہوں نے اپنایا ہے جیسا کہ جد بن قیس نے کہا تھا کہ جنگی خدمات سے مجھے معذور رکھئے اگر آپ چاہیں تو میں کچھ مالی مدد کے لئے حاضر ہوں، اس لئے ان آیتوں میں فرمایا کہ اے محمد ﷺ لوگوں کی مال و دولت اور کثرت اولاد کو دیکھ کر تعجب میں نہ پڑیں، یہ مال و دولت خدا کی طرف سے ایک ڈھیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ان ہی چیزوں کے ذریعہ جن کی کمائی کے لئے انہوں نے بڑی بڑی مشقتیں اور مصیبتیں اٹھائی ہیں ان پر دنیوی اور اخروی عذاب مسلط کرے گا، اس مال کی بدولت یہ لوگ ہمیشہ عذاب اور تکلیف ہی میں مبتلا رہیں گے کہ حاصل کرنے میں بھی تکلیف اٹھائی اور جب کوئی مالی نقصان ہوتا ہے تو وہ مالی نقصان کی مصیبت بھی ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ اس کیفیت کا ایک دلچسپ واقعہ : دلچسپ واقعہ یہ ہے جو حضرت عمر ؓ کی مجلس میں پیش آیا، قریش کے چند بڑے شیوخ جن میں سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام جیسے لوگ بھی تھے، حضرت عمر ؓ سے ملنے گئے وہاں یہ صورت پیش آئی کہ انصار اور مہاجرین میں کوئی معمولی آدمی بھی آتا تو حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ اسے اپنے پاس بٹھاتے اور ان شیوخ سے کہتے کہ اس کے لئے جگہ خالی کرو تھوڑی دیر میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ حضرات سرکتے سرکتے مجلس کے بالکل آخر میں پہنچ گئے، باہر نکل کر حارث بن ہشام نے کہا تم لوگوں نے دیکھا آج ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا ہے ؟ سہیل بن عمرو نے کہا اس میں عمر ؓ کا کچھ قصور نہیں قصور ہمارا ہے، جب ہمیں اس دین کی دعوت دی گئی تو ہم نے منہ موڑا اور یہ لوگ اس کی طرف دوڑ کر آئے پھر یہ دونوں صاحب حضرت عمر کے پاس گئے اور عرض کیا آج ہم نے آپ کا سلوک دیکھا اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے مگر کیا اب اس کی تلافی کی کوئی صورت ہے، حضرت عمر نے زبان سے کچھ جواب نہ دیا اور صرف سرحد روم کی طرف اشارہ کردیا، مطلب یہ تھا کہ اب میدان جہاد میں جان ومال کھپائو تو شاید اس کی تلافی ہوجائے۔
Top