Jawahir-ul-Quran - Yunus : 66
اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا یَتَّبِعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَآءَ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَنْ : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَمَا : کیا۔ کس يَتَّبِعُ : پیروی کرتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ يَدْعُوْنَ : پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ شُرَكَآءَ : شریک (جمع) اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : وہ نہیں پیروی کرتے اِلَّا : مگر الظَّنَّ : گمان وَاِنْ : اور نہیں ھُمْ : وہ اِلَّا : مگر (صرف) يَخْرُصُوْنَ : اٹکلیں دوڑاتے ہیں
یاد رکھو اللہ کا ہے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور جو کوئی ہے زمین میں84 اور یہ جو پیچھے پڑے ہیں85 اللہ کے سوا شریکوں کو پکارنے والے سو یہ کچھ نہیں مگر پیچھے پڑے ہیں اپنے خیال کے86 اور کچھ نہیں مگر اٹکلیں دوڑاتے ہیں
84: یہ توحید پر نویں عقلی دلیل ہے جس سے شرک فی التصرف کی نفی مقصود ہے دلیل ششم میں فرمایا تھا ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے لہذا تم اپنی طرف سے تحریم و تحلیل نہ کرو یہاں فرمایا زمین و آسمان کی تمام ذوی العقول مخلوق جن و بشر اور فرشتے سب اللہ تعالیٰ کے مملوک و محکوم اور اس کے عاجز بندے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہر بات کو سننے اور جاننے والا نہیں اس لیے ان میں سے کوئی بھی دعاء اور پکار کے لائق نہیں۔ جو لوگ اللہ کے نیک بندوں کو حاجات و مشکلات میں پکارتے ہیں ان کے بارے میں ان کا اعتقاد یہ ہوتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہیں اور ان کی تمام باتوں کو سنتے اور جانتے ہیں اس لیے پہلے اعلان کردیا گیا کہ ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ 85: یہ زجر ہے “ اَلَّذِیْنَ ” مع صلہ “ یَتَّبِعُ ” کا فاعل ہے اور “ یَدْعُوْنَ ” کا مفعول محذوف ہے “ اي شرکاء ” اور شرکاء جو مذکور ہے وہ “ یَتَّبِعُ ” کا مفعول ہے یعنی جو لوگ اللہ سے ورے اور شرکاء کو پکارتے ہیں حقیقت میں وہ اللہ کے شرکاء کو نہیں پکارتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے شریک فی الربوبیت کا تو وجود ہی محال ہے۔ “ وَ مَا یَتَّبِعُوْنَ حقیقة الشرکاء وان کانوا یسمونھا شرکاء لان شکرة اللہ فی الربوبیة محال ” (مدارک ج 2 ص 130) ۔ 86: اصل بات یہ ہے کہ مشرکین اپنے ظن وتخمین سے بندگان خدا کو خدا کے شریک سمجھتے ہیں اور پھر اپنے ظن فاسد اور خیال باطل کی پیروی کرتے ہوئے حاجات میں ان کو پکارتے ہیں حالانکہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کا شریک نہ موجود ہے نہ اس کا وجود ممکن ہے۔
Top