Jawahir-ul-Quran - Yunus : 78
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا وَ تَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَجِئْتَنَا : کیا تو آیا ہمارے پاس لِتَلْفِتَنَا : کہ پھیر دے ہمیں عَمَّا : اس سے جو وَجَدْنَا : پایا ہم نے عَلَيْهِ : اس پر اٰبَآءَنَا : ہمارے باپ دادا وَتَكُوْنَ : اور ہوجائے لَكُمَا : تم دونوں کے لیے الْكِبْرِيَآءُ : بڑائی فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم لَكُمَا : تم دونوں کے لیے بِمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والوں میں سے
بولے97 کیا تو آیا ہے کہ ہم کو پھیر دے اس راستہ سے جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادوں کو اور تم دونوں کو سرداری مل جائے اس ملک میں اور ہم نہیں ہیں تم کو ماننے والے
97: برسر اقتدار لوگوں کو ہمیشہ اپنا وقار و اقتدار بحال رکھنے کی فکر دامنگیر رہتی ہے اور وہ اپنے ملک میں اٹھنے والی ہر تنظیم کا اسی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں کہ یہ تنظیم ان کے اقتدار کے لیے کس قدر مفید یا نقصان رساں ہے فرعون نے بھی محسوس کرلیا کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت توحید قبول کرلی گئی تو اس کی خدائی اور ربوبیت ختم ہوجائیگی۔ بات تحفظ اقتدار کی تھی مگر فرعون اور قوم فرعون نے مذہب کی آڑ میں دعوت توحید کی مخالفت کی اور کہا کیا تو ہمیں ہمارے آباء و اجداد کے دین سے منحرف کرنے آیا ہے اور ہمارے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ “ عَمَّا ”۔ “ مَا ” موصولہ سے مراد دین ہے۔ “ اَلْکِبْرِیَاء ” بڑائی، سرداری اور حکومت۔
Top