Jawahir-ul-Quran - Ar-Ra'd : 2
اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے رَفَعَ : بلند کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) بِغَيْرِ عَمَدٍ : کسی ستون کے بغیر تَرَوْنَهَا : تم اسے دیکھتے ہو ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قرار پکڑا عَلَي الْعَرْشِ : عرش پر وَسَخَّرَ : اور کام پر لگایا الشَّمْسَ : سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند كُلٌّ : ہر ایک يَّجْرِيْ : چلتا ہے لِاَجَلٍ : ایک مدت مُّسَمًّى : مقررہ يُدَبِّرُ : تدبیر کرتا ہے الْاَمْرَ : کام يُفَصِّلُ : وہ بیان کرتا ہے الْاٰيٰتِ : نشانیاں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم بِلِقَآءِ : ملنے کا رَبِّكُمْ : اپنا رب تُوْقِنُوْنَ : تم یقین کرلو
اللہ وہ ہے جس نے اونچے بنائے آسمان بغیر3 ستون دیکھتے ہو   پھر قائم ہوا عرش پر اور کام میں لا دیا سورج اور چاند کو ہر ایک چلتا ہے وقت مقرر پر تدبیر کرتا ہے کام کی ظاہر کرتا ہے نشانیاں کہ شاید تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کرو
3:۔ پہلی عقلی دلیل۔ سورة یوسف میں مسئلہ توحید ہر پہلو سے واضح ہوگیا اور سورة یوسف میں دلیل نقلی تفصیلی سے ثابت کردیا گیا کہ کارساز اور عالم لغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے یہ مسئلہ اب بالکل بدیہی ہوچکا ہے۔ اب مسئلہ کو اور زیادہ کھولنے کے لیے سورة رعد میں مزید گیارہ دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ آٹھ عقلی، دو وحی اور ایک نقلی۔ یہ پہلی عقلی دلیل ہے۔ خبر کی تعریف مفید حصر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کائنات دو حصوں میں منقسم ہے علویات اور سفلیات علویات سے وہ عالم مراد ہے جو کر ات عناصر سے ماورا ہے۔ آسمان، سورج اور چاند وغیرہ اور سفلیات سے کرہ ارضی کی مخلوق مراد ہے۔ یہاں ” بِلِقَاءِ رَبِّکُمْ تُوِْقِنُوْنَ “ تک علویات کا ذکر ہے اور اس کے بعد ” لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ “ تک سفلیات کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عالم علوی اور عالم سفلی پر اپنا کام قبضہ و اقتدار اور مکمل تصرف و اختیار بیان کر کے واضح فرمایا کہ ساری مخلوق کا کارساز اور ہر ایک کی پناہ گاہ بھی میں ہی ہوں میرے سوا اور کوئی کارساز نہیں ” بِغَیْرِ عَمَدٍ “ اس نے محض اپنی قدرت کاملہ سے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر تھام رکھا ہے ” ثُمَّ اسْتَویٰ عَلَی الْعَرْشِ “ محسوس طور پر تخت پر بیٹھنا مراد نہیں بلکہ سارے جہاں پر بلا شرکت غیرے اقتدار و سلطنت مراد ہے۔ استولی بالاقتدار و نفوذ السلطان (مدارک ج 2 ص 186) ۔ اس کی پوری تحقیق سورة اعراف کی تفسیر میں ملاحظہ ہو (حاشیہ نمبر ص 63) ۔ ” وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ “ سورج اور چاند کو اس نے جس کام پر لگا دیا ہے وہ باضابطہ اپنی ڈیوٹی دے رہیں گے۔ ” یُدَبِّرُ الْاَمْرَ “ ساری کائنات کا نظام اسی کی تدبیر سے چل رہا ہے اس میں کوئی اور دخیل نہیں۔
Top