Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 2
وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
وَاِذْ : اور جب قَالُوا : وہ کہنے لگے اللّٰهُمَّ : اے اللہ اِنْ : اگر كَانَ : ہے هٰذَا : یہ هُوَ : یہ الْحَقَّ : حق مِنْ : سے عِنْدِكَ : تیری طرف فَاَمْطِرْ : تو برسا عَلَيْنَا : ہم پر حِجَارَةً : پتھر سے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان اَوِ : یا ائْتِنَا : لے آ ہم پر بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
اللہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو بلند کر رکھا ہے بغیر ستون کے (جیسا کہ) تم اسے دیکھ رہے ہو،2۔ پھر قائم ہوا عرش (سلطنت) پر اور آفتاب وماہتاب کو مطیع کیا،3۔ ہر ایک ایک وقت معین میں چلتا رہتا ہے،4۔ (اللہ) ہر امر کا انتظام کرتا رہتا ہے، نشانیوں کو کھول بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے پروردگار کی ملاقات کا یقین کرلو،5۔
2۔ زمین سے آسمان کا اتنا بلند نظر آنا اور اتنی بلند چیز بغیر کسی ظاہری مادی سہارے کے۔۔۔ یہ بجائے خود ایک دلیل خالق فطرت کی اعلی صناعی وقدرت کی ہے، جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں نفی عمد کی کی گئی ہے۔ آیت میں ان یونانی ومصری حکماء وفلاسفہ کا رد آگیا، جو آسمان کو قائم بالذات صاحب عقل و ارادہ دیوتا تسلیم کرتے تھے۔ (آیت) ” ترونھا “۔ کے ترجمہ میں ضمیر مونث السماوات کی طرف لی گئی ہے لیکن جائز ہے کہ عمد کی طرف بھی لی جائے اس صورت میں نفی عمد کی نہیں بلکہ رؤیت عمد کی رہے گی یعنی آسمانوں کے لئے ایسے ستون ہیں جو تمہارے لئے غیر مرئی وغیرہ مشاہد ہیں۔ قیل ضمیر النصب فی ترونھا عائد علی عمد ای بغیر عمد مرئیۃ (بحر) یحتمل وجھین احدھما انھا لھا عمد ولا تری تلک العمد وھذا ذھب الیہ مجاھد وقتادۃ (بحر) وقال ابن عباس ؓ وما یدریک انھا بعمد لا تری (بحر) اس صورت میں قانون کشش وغیرہ جس نام سے بھی سائنس توجیہات پیش کرے، سب آیت کے ماتحت غیر مرئی کے عموم میں داخل ہوجائیں گی، اور سب سے بہتر اس باب میں وہ تشریح ہے جو امام رازی (رح) نے پیش کی ہے۔ امام موصوف (رح) فرماتے ہیں کہ آسمان کو قائم رکھنے والے اصلی ستون حق تعالیٰ کی قوت حفظ وتدبیر ہیں اور یہ تمہارے لئے غیر مرئی ہیں۔ وقد دللنا علی ان ھذہ الاجسام انھا بقیت واقفۃ فی اجو العالی بقدرۃ اللہ تعالیٰ وحینئذ یکون عمدھا ھو قدرۃ اللہ تعالیٰ (کبیر) 3۔ (اپنے احکام تکوینی کا اور انہیں کام میں لگا دیا) سورج اور چاند دیوی دیوتا ہونا تو خیر بڑی چیز ہے خود مختار اور آزاد بھی نہیں، مشیت الہی کے آگے تمامتر مسخر ومجبور ہیں ان کے خالق نے انہیں جس کام چاہا لگا دیا۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ (آیت) ” استوی علی العرش “۔ یعنی قوانین جہانبانی کا نفاذ شروع کردیا۔ استواء اور عرش دونوں پر مفصل حاشیہ پہلے گزر چکے ہیں۔ 4۔ (اپنے اپنے مدار پر حسب قانون خداوندی) (آیت) ” کل یعنی سورج اور چاند دونوں میں سے ہر ایک۔ 5۔ مطلب یہ ہوا کہ جو قادر مطلق ایسی ایسی عظیم الشان مخلوقات کی خلق اور ایجاد پر قادر ہے اس کے لئے انسان کا دوبارہ پیدا کردینا کچھ دشوار ہے ؟ (آیت) ” یدبر الامر “۔ ہر امر کا انتظام حکمت ومصلحت کے ساتھ کرتا رہتا ہے یعنی وہ محض صانع و خالق ہی نہیں جو ایک مرتبہ تخلیق کے بعد معطل ہو کر بیٹھ گیا (جیسا کہ بہت سے گمراہ فرقوں نے فرض کر رکھا ہے) بلکہ حاکم و متصرف بھی ہے۔ (آیت) ” الایت “۔ اس کے اندر تکوینی نشانات اور تشریعی دلائل دونوں آگئے۔
Top