Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 86
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا١ؕ۬ قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًا
حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا مَغْرِبَ : غروب ہونے کا مقام الشَّمْسِ : سورج وَجَدَهَا : اس نے پایا اسے تَغْرُبُ : ڈوب رہا ہے فِيْ : میں عَيْنٍ : چشمہ۔ ندی حَمِئَةٍ : دلدل وَّوَجَدَ : اور اس نے پایا عِنْدَهَا : اس کے نزدیک قَوْمًا : ایک قوم قُلْنَا : ہم نے کہا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ : اے ذوالقرنین اِمَّآ : یا چاہے اَنْ : یہ کہ تُعَذِّبَ : تو سزا دے وَاِمَّآ : اور یا چاہے اَنْ : یہ کہ تَتَّخِذَ : تو اختیار کرے فِيْهِمْ : ان میں سے حُسْنًا : کوئی بھلائی
یہاں تک کہ جب پہنچا سورج ڈوبنے کی جگہ پایا کہ وہ76 ڈوبتا ہے ایک دلدل کی ندی میں اور پایا اس کے پاس لوگوں کو ہم نے کہا اے ذوالقرنین77 یا تو تو لوگوں کو تکلیف دے اور یا رکھ ان میں خوبی  
76:۔ یہ ذو القرنین کی مغربی مہم کا ذکر ہے۔ وہ مغرب کی جانب اس قدر دور نکل گیا کہ اب مزید آگے بڑھنے سے دلدل کے ایک طویل و عریض سمندر نے اسے روک دیا اور جانب مغرب میں گویا وہ زمین کے منتہی پر پہنچ گیا کیونکہ اس دلدل کو عبور کر کے آگے نکلنا ناممکن تھا جب سورج غروب ہوتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ دلدل میں چھپ رہا ہے۔ ” حمئۃ “ ای ذات حماۃ۔ حماۃ کے معنی کیچڑ کے ہیں۔ ” عین حمئۃ “ یعنی کیچر والا چشمہ، مراد دلدل ہے۔ ایک قوم اس دلدلی سمندر کے کنارے آباد تھی۔ 77:۔ ذوالقرنین کی نبوت کے بارے میں اختلاف ہے، بعض نے کہا ہے کہ وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرح ایک بادشاہ اور نبی تھے اور بعض کا قول ہے کہ وہ ولی تھے۔ پہلی صورت میں یہ خطاب بذریعہ وحی ہے اور دوسری صورت میں بذریعہ الہام۔ ” من ظلم “ جس نے میری دعوت قبول نہ کی اور شرک پر اڑا رہا۔ لم یقبل دعوتی و اصر علی ماکان علیہ من الظلم العظیم الذی ہو الشرک (روح ج 16 ص 34) ۔
Top