Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 119
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا١ۙ وَّ لَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ
اِنَّا : بیشک ہم اَرْسَلْنَاکَ : آپ کو بھیجا بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ بَشِيرًا ۔ وَنَذِيرًا : خوشخبری دینے والا۔ ڈرانے والا وَلَا تُسْئَلُ : اور نہ آپ سے پوچھا جائے گا عَنْ : سے اَصْحَابِ : والے الْجَحِيمِ : دوزخ
بیشک ہم نے تچھکو بھیجا ہے سچا دین دیکر226 خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور تجھ سے پوچھ نہیں دوزخ میں رہنے والوں کی
226 حق سے مراد قرآن اور دین اسلام ہے اور ظرف ارسلنا کے متعلق ہے (کبیر ص 701 ج 1) بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًایہ ضمیر خطاب سے حال ہے۔ وَّلَا تُسْـــَٔـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْم۔ جو لوگ کفر و انکار کر کے جہنم میں چلے گئے ان کے متعلق آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ کی تبلیغ کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوا، وہ ایمان کیوں نہیں لائے اور جہنم میں کیوں چلے گئے۔ جب اہل کتاب اور مشرکین کا کفر و انکار، ضد اور عناد کی حد تک پہنچ گیا۔ تو اس پر آنحضرت ﷺ کو محض شفقت علی الخلق کی بنا پر رنج اور افسوس ہوا۔ کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ آپ اس فکر میں کیوں پڑتے ہیں۔ ہم نے آپ کو قرآن جیسی حق وصداقت اور رشد وہدایت سے لبریز کتاب دیکر بھیجا ہے اور آپ کا فرض صرف یہ ہے کہ آپ تبلیغ کا حق ادا کریں اور ماننے والوں کو خوشخبری اور نہ ماننے والوں کو ڈراوا سنادیں۔ باقی رہا منوانا تو یہ آپ کا فرض نہیں اور نہ ہی یہ آپ کے بس کی بات ہے۔ اس لیے جو لوگ کفر و انکار کر کے جہنم میں جاتے ہیں جائیں ان کے متعلق آپ سے کوئی سوال نہیں ہوگا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ان کے عدم ایمان کا آپ کی طرف سے عذر بیان فرمادیا کہ اس بد انجام کا سبب وہ خود ہیں۔ آپ کی تبلیغ کا قصور نہیں۔ بےبسی وبیچارگی کی حد ہے۔ اگر آنحضرت ﷺ مالک ومختار اور متصرف ہوتے تو دنیا میں کوئی کافر نظر نہ آتا بلکہ آپ سب کو ایمان کی دولت سے مالا مال کردیتے۔ اب آگے یہود ونصاری کی اسلام سے شدت عداوت اور صلابت علی الکفر کا بیان فرمایا ہے۔
Top