Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 118
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا یُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْ١ؕ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِينَ : جو لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے لَوْلَا : کیوں نہیں يُکَلِّمُنَا : کلام کرتا ہم سے اللّٰہُ : اللہ اَوْ تَأْتِينَا : یا نہیں آتی ہمارے پاس اٰيَةٌ : کوئی نشانی کَذٰلِکَ : اسی طرح قَالَ : کہا الَّذِينَ : جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے مِثْلَ : جیسی قَوْلِهِمْ : بات ان کی تَشَابَهَتْ : ایک جیسے ہوگئے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل قَدْ بَيَّنَّا : ہم نے واضح کردیں الْآيَاتِ : نشانیاں لِقَوْمٍ : قوم کے لئے يُوْقِنُوْنَ : یقین رکھنے والے
اور کہتے ہیں وہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے224 کیوں نہیں بات کرتا ہم سے اللہ یا کیوں نہیں آتی ہمارے پاس کوئی آیت اسی طرح کہہ چکے ہیں وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے انہی کی سی بات225 ایک سے ہیں دل ان کے بیشک ہم نے بیان کردیں نشانیاں ان لوگوں کے واسطے جو یقین لاتے ہیں
224 ۔ پانچواں شکوہ۔ چوتھا شکوہ توحید میں گڑ بڑ کرنے سے متعلق تھا۔ اور یہ رسالت پر جرح وقدح سے متعلق ہے۔ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ سے بعض نے مشرکین عرب مراد لیے ہیں اور بعض نے یہود ونصاریٰ لیکن بہتر یہ ہے کہ اس سے تینوں گروہ مراد ہوں کیونکہ بےجا اور معاندانہ سوال تینوں گروہوں سے ثابت ہیں۔ مشرکین نے مطالبہ کیا تھا۔ فَلْیَاتِنَا بِاٰ یَۃٍ کَمَا اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ (انبیا رکوع 1) اور یہود ونصاری کے متعلق ارشاد ہے۔ یَسْئَلُکَ اَھْلُ الْکِتَابِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتَاباً مِّنَ السَّمَا (نسا ع 22) باقی رہی یہ بات کہ مشرکین تو بےعلم ہوئے کیونکہ ان کے پاس اللہ کی کتاب نہیں تھی۔ اہل کتاب کیسے لا یعلمون کے تحت داخل ہوں گے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی جاہلانہ حرکات اور بدعملی کی بنا پر ان کے علم کی نفی کی گئی ہے۔ وعلی الاخیرین لتجاھلہم او لعدم علمھم بمقتضاہ (روح ص 370 ج 1) لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللّٰهُ ۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کلام کرتا ہے یا جس طرح انبیا کی طرف وحی بھیجتا ہے اس طرح وہ براہ راست یا بذریعہ وحی ہم سے کیوں ہمکلام نہیں ہوتا۔ اور براہ راست ہمیں ہی ہدایت نامہ کیوں نہیں دیدیتا۔ اَوْ تَاْتِيْنَآ اٰيَةٌ۔ آیت سے آنحضرت ﷺ کی صداقت کی دلیل مراد ہے۔ یہ سوالات ان کی انتہائی سرکشی اور ضد وعناد کا نتیجہ تھے۔ آنحضرت ﷺ کی صداقت کے واضح دلائل ان کے سامنے تھے۔ وہ کئی ایک معجزات بھی دیکھ چکے تھے۔ مگر اس کے باوجود مزید دلائل کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس لیے کہ ماننا مقصود نہیں تھا۔ بلکہ محض ضد وعناد اور بغض وحسد کا اظہار مد نظر تھا۔225 یعنی یہ سرکشانہ اور معاندانہ رویہ کوئی ان کے ساتھ ہی مخصوص نہیں۔ ان سے پہلے ان کے آباؤ اجداد بھی ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسیٰ اَکْبَرَ مِنْ ذَالِکَ (نسا ع 22) تَشَابَهَتْ قُلُوْبُھُمْ ۔ بےبصیرتی اور ضد وعناد میں ان کے اور ان کے بڑے بڑوں کے دل ملے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے سوالات طلب حق پر مبنی تھے نہ ان کے مطالبات کسی نیک غرض پر مبنی ہیں۔ ای قلوب ھؤلا و من قبلھم فی العمی والعناد (روح ص 370 ج 1) ۭ قَدْ بَيَّنَّا الْاٰيٰتِ ۔ ان لوگوں کا مقصد محض سرکشی اور ضد ہے۔ ورنہ دلائل وآیات کو تو ہم کھول کھول کر بیان کرچکے ہیں۔ لِقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ ۔ جو لوگ صدق نیت کے ساتھ حق ویقین کی جستجو کرنے والے ہیں ان کے اطمینان کے لیے تو وہ آیات کافی وشافی ہیں۔ الطالبون معرفۃ حقائق الاشیا علی یقین وصحۃ (ابن جریر ص 388 ج 1) ای یطلبون الیقین (بیضاوی ص 36) البتہ ضدوعناد کا کوئی علاج نہیں۔
Top