Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
اور جب ملاقات کرتے ہیں مسلمانوں سے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں27 اور جب تنہا ہوتے ہیں اپنے شیطان کے پاس28 تو کہتے ہیں کہ بیشک ہم تمہارے ساتھ29 ہیں ہم تو ہنسی کرتے ہیں (یعنی مسلمان سے)30
27 ۔ یہ منافقوں کی تیسری خباثت ہے کہ جب وہ بااثر اور مخلص مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم خالص ایمان لا چکے ہیں آمنا سے منافقین مسلمانوں کو اس بات کا یقین دلانا چاہتے تھے کہ اب انہوں نے نفاق چھوڑ دیا ہے اور دل سے خالص ایمان قبول کرلیا ہے کیونکہ ان کا زبانی ایمان تو مسلمانوں کو پہلے بھی معلوم تھا۔ فالمراد اخلصنا بالقلب والدلیل علیہ انا الاقرار باللسان کان معلوما منھم (کبیر ص 309 ج 1) مگر یہی لفظ ان کے نفاق کی غمازی کرتا ہے کیونکہ مسلمانوں کو پہلے سے اس نفاق کا علم تھا اب اس کی تردید کیلئے اور ان کے دلوں میں اپنے اخلاص کا سکہ بٹھانے کے لئے انہیں کوئی تاکیدی جملہ استعمال کرنا چاہئے تھا مگر اس کے باوجود وہ سرسری طور پر صرف اٰمَنَّا کا لفظ استعمال کرتے ہیں اس لیے کہ نفاق قلبی کی وجہ سے وہ تاکیدی جملے کو گوارا نہیں کرسکتے۔ 28 ۔ خلا کا صلہ عام طور پر با آتا ہے مگر یہاں الی آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں خلا ذہاب کے معنوں کو متضمن ہے اور مطلب یہ ہے کہ منافقین مسلمانوں سے ملنے کے بعد جب اپنے لیڈروں کے پاس جاتے ہیں تو وہاں مسلمانوں کے سامنے کئے ہوئے اقرار کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ اس تضمین کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے منافقین کی منافقت خوب عیاں ہوجاتی ہے۔ لہذا الی ذاھبین محذوف سے متعلق ہے جو خلوا کے فاعل سے حال ہے۔ ای خلوا ذاھبین الی شیاطینہم۔ اور شیاطین سے علمائے یہود، اور شرک وکفر کے لیڈر مراد ہیں۔ شیاطینھمسادتھم وکبراءھم و رؤساء ھم من احبار الیھود رءوس المشرکین والمنافقین (ابن کثیر ص 501 ج 1) 29 ۔ یعنی دین اور ایمان اور عقیدہ میں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ انا صاحبوکم وموافقوکم علی دینکم (مدارک ص 17، 18 ج 1) 30 ۔ یعنی ہم دل سے تھوڑے مسلمان ہیں۔ دل سے تو تمہارے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں کے سامنے ایمان کا اظہار محض استہزاء اور تمسخر کے طور پر اور انہیں بیوقوف بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ تاکہ وہ ہمیں مسلمان سمجھیں اور ہم سے مسلمانوں کا سا معاملہ کریں۔ ہمارا مال وجان محفوظ ہوجائے اور ہمیں مال غنیمت وغیرہ میں سے حصہ مل جایا کرے۔ انما نستخف بھم فی ذلک القول لصون دمائنا واموالنا وذریاتنا (نہر ص 70 ج 1) ۔
Top