Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 13
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ
وَإِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں آمِنُوا : تم ایمان لاؤ کَمَا : جیسے آمَنَ : ایمان لائے النَّاسُ : لوگ قَالُوا : وہ کہتے ہیں أَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لائیں کَمَا : جیسے آمَنَ السُّفَهَاءُ : ایمان لائے بیوقوف أَلَا إِنَّهُمْ : سن رکھو خود وہ هُمُ السُّفَهَاءُ : وہی بیوقوف ہیں وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ : لیکن وہ جانتے نہیں
اور جب کہا جاتا ہے ان کو ایمان لاؤ جس طرح ایمان لائے سب لوگ23 تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے بیوقوف24 جان لو وہی ہیں بیوقوف25 لیکن نہیں جانتے26
23 ۔ یہ منافقین کی دوسری خباثت ہے۔ زبان سے آمنا کہہ کر مومن ہونے کا دعویٰ تو وہ پہلے ہی کرچکے تھے۔ یہاں دوبارہ انہیں ایمان لانے کا حکم دیا جارہا ہے۔ وہ منافقانہ طور پر ایمان لائے ہوئے تھے اب انہیں مخلصانہ طور پر ایمان لانے کا حکم دیا جارہا ہے۔ ای ایمانا مقروناً بالاخلاص بعیدا عن النفاق (کبیر ص 289 ج 1) مقروناً بالاخلاص خالصا عن شوائب النفاق (روح ص 154 ج 1) اور الناس میں الف لام عہد کا ہے اور اس سے مراد مہاجرین وانصار ہیں یا وہ مومنین مراد ہیں جو اہل کتاب میں سے ایمان لا چکے تھے۔ عبداللہ بن سلام وغیرہ من مومنی اھل لکتاب وقیل کما امن المھاجرون والانصار (معالم ص 29 ج 1) انہا للعرمدای کما امن رسول اللہ و من معدوھم ناس معبودون او عبداللہ بن سلام واشیاعہ (کبیر ص 288 ج 1، مدارک ص 17 ج 1) ۔ 24 ۔ یہ منافقین کا قول ہے اور لفظ سفہاء سے انہوں نے صحابہ کرام پر طنز کیا ہے یعنی ہم (خاکش بدہن) ان بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں جو اپنے نفع ونقصان کو بھی نہیں سوچتے۔ وانما سفہوھم جھلا منھم حیث اشگغلوا بمالایجدی فی زعمھم (روح ص 155 ج 1) ۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ منافقین صاحب اقتدار لوگ تھے وہ دولت واقتدار کے نشہ میں مخمور طبقہ دین اسلام کو باطل سمجھتا تھا اور جو شخص باطل دین کو قبول کرے وہ بیوقوف ہوتا ہے (کہ ص 289 ج 1) جیسا کہ آج کل روشن خیالی کے مرض میں مبتلا اور نشہ اقتدار میں بد مست طقہا دین کا درد رکھنے والوں اور ان کی خدا اور رسول کے احکام سے بغاوت پر حرف گیری کرنے والوں کو کم فہم، دقیانوی اور موجودہ دور کے تقاضوں سے بیخبر وغیرہ القاب سے سرفراز فرماتے ہیں۔ یہ بعینہ ان منافقین کی تقلید ہے۔ 25 ۔ یہاں بھی اسی زور اور تاکید کے ساتھ منافقین کا رد کیا گیا ہے۔ یعنی اصل میں بیوقوف تو وہ خود ہیں جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کے متفقہ دین کو قبول کرنیوالوں پر سفاہت اور کم عقلی کا الزام لگا رہے ہیں۔ الا انھم ھم السفہاء دون المونین المصدقین باللہ وبرسولہ وثوابہ و عقابہ (ابن جریر ص 99 ج 1) ۔ 26 ۔ ان کی جہالت اور نادانی کا یہ عالم کہ وہ اپنی اس کھلی ہوئی حماقت اور سفاہت کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ فائدہ : ان آیتوں سے صحابہ کرام ؓ کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوئی ہے یہ آیتیں ان کے مومنین مخلصین ہونے کا بین اور لافانی ثبوت ہیں ان کا ایمان اس قدر کامل، شوائب نفاق سے اس قدر پاک، خدا کے نزدیک اس قدر پسندیدہ اور مقبول ہے کہ اسے منافقین کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے نیز اس مبارک جماعت کو بیوقوف کہنے والوں کو پرلے درجہ کے بیوقوف قرار دیا ہے۔
Top