Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 18
صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ
صُمٌّ : بہرے بُكْمٌ : گونگے عُمْيٌ : اندھے فَهُمْ : سو وہ لَا : نہیں يَرْجِعُونَ : لوٹیں گے
بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں38 سو وہ نہیں لوٹیں گے39
38 ۔ اگرچہ ان کے ظاہری حواس درست ہیں لیکن جب انہوں نے ان حواس سے کام نہ لیا، کانوں سے حق نہ سنا۔ زبان سے حق کا اقرار نہ کیا، اور بصیرت کی آنکھوں سے حق کو نہ دیکھا تو گویا ان کے حواس ہی بیکار ہوچکے ہیں۔ اور وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ کانت حواسہم سلیمۃ ولکن لما سدوا عن الاصاغۃ الی الحق مسامعہم وابوا ان ینطقوا بہ السنتھم وان ینظروا ویبصروا بعیونھم جعلوا کانما ایفت مشعرھم (مدارک ص 20 ج 1) ۔ 39 ۔ یعنی اب ان کے ہدایت پر آنے کی کوئی راہ نہیں۔ لیکن حضرت شیخ علیہ الرحمۃ والغفران نے فرمایا کہ دنیا میں جب بھی کسی داعی توحید نے دعوت توحید پیش کی ہمیشہ لوگ دو جماعتوں میں بٹ گئے۔ کچھ لوگوں نے دعوت توحید کو مان لیا اور مومنین کہلائے اور کچھ لوگوں نے اس دعوت کو نہ مانا وہ کفار کے نام سے موسوم ہوئے اگر مومنین کو مادی اور دنیوی اقتدار بھی حاصل ہوگیا تو کافروں میں خوشامدی لوگوں کی ایک جماعت پیدا ہوگئی۔ یہ لوگ ایک طرف مسلمانوں کے اقتدار سے مرعوب و خائف ہوتے اس لیے ان کے سامنے اسلام کا اظہار کرتے اور اپنے کو اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ ظاہر کرتے اور دوسری طرف کافروں سے ملے رہتے۔ یہ منافقین کی جماعت ہے۔ کافر بھی اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں لیکن منافقین کافروں سے بھی زیادہ مضر اور خطرناک ہوتے ہیں۔ کیونکہ منافقین مسلمانوں میں ملے جلے رہتے ہیں اور مسلمان ان کو اپنی جماعت کے آدمی سمجھتے ہیں اس طرح منافقوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خفیہ ریشہ دوانیاں کرنے کا خوب موقع مل جاتا ہے اور وہ اپنے بن کر اس قدر نقصان پہنچاتے ہیں کہ اتنا دشمن اور بیگانے بھی نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں جماعتوں یعنی مومنین، کفار اور منافقین کا حال بیان کرنے کے بعد آخرالذکر دو جماعتوں کا حال خوب واضح کرنے کے لیے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک اعلانیہ کافروں کیلئے یعنی مَثَلُھُمْ سے لَا یَرْجِعُوْنَ تک اور ایک منافقوں کیلئے یعنی اَوْکَصَیِّبٍ سے آخر رکوع تک اس لیے مثلہم کی ضمیر مطلق کفار کی طرف راجع ہے۔ پہلی مثال کافروں کیلئے اور اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًاسے آنحضرت ﷺ مراد ہوں گے جنہوں نے آیات بینات کے ذریعے رشد وہدایت کی آگ جلائی فَلَمَّآ اَضَاۗءَتْ مَا حَوْلَهٗ کے بعد یہ عبارت محذوف ہے وعندہ رجال اٰخرون۔ یعنی اس آگ جلانے والے کے پاس کچھ اور لوگ بھی موجود تھے مگر یہ لوگ اس آگ کی روشنی سے محروم رہے کیونکہ آگ کے لیے روشنی کے ساتھ ساتھ بینائی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ذَھَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِم ْاللہ نے ان سے نور بصیرت ہی چھین لیا۔ یہ کفار مکہ تھے جو آگ جلانے والے کے پاس موجود تھے جب قرب و جوار کے لوگ اس نور ہدایت سے مستفید ہورہے تھے اس وقت کفار مکہ ضد وعناد اور بغض وحسد کی وجہ سے کفر وعصیان اور جحود و انکار پر کمر بستہ ہوگئے تو اس کا لازمی وتکوینی نتیجہ یہ ہوا کہ ان سے وہ نور بصیرت جو فطرۃً ہر انسان کو ملتا ہے چھین لیا گیا، اور ان کے دلوں سے احساس حق کی صلاحیت سلب کرلی گئی۔ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ ۔ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر جباریت ثبت کردی گئی اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دئیے گئے اور انہیں گھپ اندھیرے میں چھوڑ دیا گیا کہ اب وہ کبھی راستہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ ۻ بُكْمٌ عُمْىٌ فَھُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ۔ اس آیت کا مفہوم بعینہ وہی ہے جو خَتَمَ اللہ الخ کا ہے۔ بہرے اور اندھے تو اس لیے کہ ان کے کانوں پر مہر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ گونگے اس لئے ہیں کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔ جب ان میں حق سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں تو حق گوئی کا وجود بھی نہیں ہوگا۔ جب کچھ سمجھیں گے ہی نہیں تو بولیں گے کیا ؟ اور لَا یَرْجِعُوْنَ کا یہاں وہی مفہوم ہے جو وہاں لَا یُوْمِنُوْنَ کا ہے۔ ایک بات ذہن نشین رہے کہ یہاں کفار کی ذوات کو ذات مستوقد سے تشبیہ نہیں دی گئی بلکہ ان کے قصے کو قصۂ مستوقد سے تشبیہ دی گئی ہے۔ وانما شبھت قصتھم بقصۃ المستوقد (کبیر ص 295 ج 1) ۔
Top