Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ
مَثَلُهُمْ : ان کی مثال کَمَثَلِ : جیسے مثال الَّذِي : اس شخص اسْتَوْقَدَ : جس نے بھڑکائی نَارًا : آگ فَلَمَّا : پھر جب أَضَاءَتْ : روشن کردیا مَا حَوْلَهُ : اس کا اردگرد ذَهَبَ : چھین لی اللَّهُ : اللہ بِنُورِهِمْ : ان کی روشنی وَتَرَکَهُمْ : اور انہیں چھوڑدیا فِي ظُلُمَاتٍ : اندھیروں میں لَا يُبْصِرُونَ : وہ نہیں دیکھتے
ان کی مثال35 اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی36 پھر جب روشن کردیا آگ نے اس کے آس پاس کو تو زائل کردی اللہ نے ان کی روشنی اور چھوڑا ان کو اندھیروں میں کہ کچھ نہیں دیکھتے37
35 ۔ عام مفسرین کی رائے مطابق اب یہاں سے منافقوں کی دو مثالیں بیان کی جارہی ہیں۔ پہلی مثال مَتلُھُم سے لے کر لَایَرْجِعُوْن تک اور دوسری ۙاَوْ كَصَيِّبٍ سے لیکر آخر رکوع تک۔ 36 ۔ آگے چل کر ان آگ جلانے والوں کے لیے جمع کی ضمیر ذکر کی گئی ہے۔ اس لیے یہاں الذی معنی جمع ہے۔ اسْـتَوْقَدَ اور حَوْلَہٗ میں لفظ کے لحاظ سے ضمیر واحد استعمال کی گئی ہے اور جمع کی ضمیروں میں معنی کا لحاظ کیا گیا ہے۔ 37 ۔ یہ ما قبل کی تفسیر ہے یعنی جب آگ کی وجہ سے چاروں طرف روشنی ہوگئی تو اچانک آگ بجھ گئی اور وہ روشنی ان سے سلب کرلی گئی اور وہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چھوڑ دئیے گئے اور انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ اس تمثیل میں منافقین کے زبانی اقرار ایمان کو آگ جلانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اظہار اسلام کے بعد بطور مسلمان جو فوائد انہیں حاصل ہوئے اسے ماحول کی روشنی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور روشنی سلب کرلینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ان کا نفاق نیص (علیہ السلام) پر ظاہر کر کے انہیں ان فوائد سے محروم کردیا اور انہیں پھر سے کفر وضلالت کی تاریکیوں میں چھوڑ دیا (کبیر ص 294 ج 1) ۔
Top