Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 29
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۗ ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِىْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا لَكُمْ : واسطے تمہارے مَّا : جو کچھ ہے فِى الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سارے کا سارا / سب کچھ ثُمَّ : پھر اسْتَوٰٓى : وہ متوجہ ہوا / ارادہ کیا اِلَى : طرف السَّمَآءِ : آسمان کے فَسَوّٰىھُنَّ : پس برابر کردیا ان کو / درست بنایا ان کو / ہموار کیا ان کو سَبْعَ : سات سَمٰوٰتٍ : آسمانوں کو وَ : اور ھُوَ : وہ بِكُلِّ : ساتھ ہر شَىْءٍ : چیز کے عَلِيْمٌ : خوب علم والا ہے
وہی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے سب پھر قصد کیا آسمان کی طرف سو ٹھیک کردیا ان کو سات آسمان اور خدائے تعالیٰ ہر چیز سے خبردار ہے73
73 ۔ کائنات ارضی کو تمہارے لئے پیدا کیا تاکہ تم اس سے مادی فوائد حاصل کرو، اور اس میں غور وخوض کر کے خالق کی قدرت وصنعت کا اندازہ لگاؤ، زمین میں ہمارے صرف دنیوی فائدے ہی نہیں بلکہ اس میں دینی فائدے بھی ہیں اور سامانِ آخرت بھی۔ واما قولہ لکم فھو یدل علی ان المذکور بعد قولہ خلق لاجل اشفاعنا فی الدین والدنیا (کبیر ص 370 ج 1) ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ ۔ استوی کا صلہ جب الی ہو تو اس کے معنی قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے ہیں۔ استوی الی ای اقبل (قرطبی ص 254 ج 1) زمین پیدا کرنے کے بعد وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ۔ تسویہ سے مراد یہ ہے کہ آسمانوں کو بالکل اور مکمل بنایا اور ان میں کسی قسم کی درز یا شکن باقی نہ رہنے دی۔ ومنعی تسویتھن تعدیل خلقھن واخلاءہ من العوج والفطور واتمام خلقھن (کبیر ص 373 ج 1) وَھُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ جس طرح وہ تمام کائنات ارضی وسماوی کا خالق ہے اسی طرح وہ سارے عالم کے ذرہ ذرہ کو جانتا ہے اور زمین و آسمان کی کوئی چیز اس کے علم محیط سے باہر نہیں۔ اس آیت کی ابتداء یعنی ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ میں مبتدا اور خبر ہر دو کے معرفہ ہونے کی وجہ سے حصر ہے پھر ثُمَّ اسْتَویٰ ، خَلَقَ پر معطوف ہے اور وَھُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ، ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ پر معطوف ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب کلام کی ابتداء میں حصر ہو تو اس کے باقی اجزاء میں بھی حصر ہوگا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق و کارساز ہے اور صرف اللہ ہی ہر چیز کا عالم ہے۔ نتیجہ :۔ جب تم جانتے ہو کہ موت وحیات خدا کے قبضہ میں ہے، زمین و آسمان کا خالق بھی وہی ہے اور ہر ظاہر وچھپی ہوئی چیز کا جاننے والا بھی وہی ہے۔ جب یہ سب کام اسی کے ہیں اور ان میں کوئی اس کا شریک نہیں تو پھر عبادت اور پکار میں اوروں کو کیوں اس کا شریک بناتے ہو۔ نیز تمام دینی ودنیوی نعمتیں بھی اسی ہی نے عطا کی ہیں اور بغیر مانگے دی ہیں تو پھر وہ کون سی چیزیں ہیں جو وہ نہیں دے سکتا اور تم وہ غیروں سے مانگتے ہو۔ کوئی انبیاء (علیہم السلام) اور اولیائے کرام کو پکار رہا ہے، کوئی ملائکہ مقربین سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور کوئی جنوں کے یہاں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ حالا کہ کوئی ناری یا خاکی خدا کا شریک نہی ہوسکتا کیونکہ معبود صرف وہی ہوسکتا ہے جو زمین و آسمان کا خالق ومالک اور ہر چیز کا عالم ہو۔ مگر نوریوں، ناریوں اور خاکیوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے۔
Top