Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
اور جب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب سجدہ میں گر پڑے مگر شیطان اس نے نہ مانا اور تکبر کیا اور تھا وہ کافروں میں کا85
85 ۔ فرشتوں کو سجدہ کا حکم، ان کے عجز ونیاز کا اظہار اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی ان پر برتری ثابت کرنے کے لیے دیا گیا۔ سجدہ سے مراد شرعی سجدہ ہے۔ یہ حکم اس خاص وقت میں نوریوں کو ہوا تھا کہ قوہ آدم کو سجدہ کریں۔ یہ حکم فرشتوں ہی سے مخصوص تھا اب اس پر یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو سجدہ کرے یا لِاٰدَمَ کا لام بنی علی ہوگا تو اس صورت میں مسجود حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہوگا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی حیثیت قبلہ کی ہوگی جیسا کہ ہم شب وروز بیت اللہ کی طرف سجدہ کرتے رہتے ہیں (روح ص 228 ج 1) سجدہ غیر اللہ کی پوری تحقیق سورة یوسف کی تفسیر میں آئیگی انشاء اللہ تعالیٰ لیکن اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ سجدہ شروع نہیں تھا بلکہ لغوی تھا اور اس سے مراد صرف عجز و انکسار کا اظہار تھا۔ وقیل المعنی اللغوی ولم یکن فیہ وضع الجباہ بل کان مجرد تذلل وانقیاد (روح ص 228 ج 1) فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۔ اللہ کے اس حکم کی تمام فرشتوں نے فوراً تعمیل کی لیکن ابلیس اکڑ گیا۔ اَبیٰ وَاسْتَکْبَرَ ۔ اس نے کبر اور غرور کی وجہ سے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اپنے آپ کو حضرت آدم (علیہ السلام) سے برتر سمجھا۔ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ ۔ اور اللہ کے علم میں وہ ازلی بدبخت تھا اور خدا کو معلوم تھا کہ وہ ایمان کے بعد کفر کریگا۔ اور یا کَانَ بمعنی صَارَ ہے یعنی انکار اور استکبار کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا۔ یہاں فرشتوں کے پجاریوں پر ایک حقیقت واضح کردی کہ انہیں حضرت آدم (علیہ السلام) کی تعظیم کیلئے ان کے سامنے جھکنے کا حکم ملا تھا۔ جو مخلوق تمہارے دادا کی تعظیم پر مامور کی گئی اب تم اس کے سامنے کیوں جھکتے ہو ؟ اور اپنی خودی کو کیوں برباد کرتے ہو ؟ جو لوگ جنات کو پوجتے ہیں وہ بھی غور کریں کہ جنات تو پہلے دن سے انسانوں کے دشمن ہیں اور ان کی دشمنی بالکل واضح ہے پھر ان کو وہ خدا کا شریک بناتے اور خدا کے سوا کارساز سمجھتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے۔ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ( سورة کہف) ۔
Top