Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
اور یاد کرو جب کہ ہم نے کہا فرشتوں سے کہ آدم کو سمجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے بن گیا
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوا لِاٰدَمَ: سجدہ کا لفظ عربی زبان میں جھکنے کے معنی میں آتا ہے، جھکنے کے مختلف مدارج ہو سکتے ہیں۔ کسی کے آگے تعظیم کے طور پر سر نیہوڑا دینا بھی جھکنا ہے اور پیشانی اور ناک کو زمین پر رکھ دینا بھی جھکنا ہے۔ پچھلے مذاہب میں تعظیم کی یہ قسم غیر اللہ کے لئے جائز تھی لیکن عموماً اس کی حد وہی تھی جو ہمارے ہاں رکوع کی ہے۔ بنی اسرائیل میں اس طرح کے تعظیمی سجدے کا عام رواج تھا اور تورات کے مختلف مقامات سے اس کی جو شکل معین ہوتی ہے وہ رکوع سے ملتی جلتی ہوئی ہے۔ اسلام نے تعظیم کی اس شکل کو خدائے رب العزت کے لئے خاص کر دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام خدا کا آخری اور کامل دین ہے، اس نے توحید کی حقیقت کو مکمل طور پر اجاگر کر دینے کے لئے خدا کے لئے تعظیم وتذلل کی شکلیں بھی خاص کر دی ہیں تاکہ اس کے اندر شرک کے داخل ہونے کے لئے کوئی رخنہ باقی نہ رہ جائے۔ فرشتوں کو آدم کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دینے میں شرک کا کوئی پہلو نہیں ہے اس لئے کہ اولاً تو یہ سجدہ خدا کے حکم کی تعمیل میں تھا اس لئے گویا خدا ہی کو سجدہ تھا، ثانیاً سجدہ شرک کی علامت، جیسا کہ عرض کیا گیا، اسلام میں قرار دیا گیا ہے۔ اسلام سے پہلے اس کی اہمیت تعظیم کے ایک طریقہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔ اگر یہ کہا گیا ہے کہ آدم کو سجدہ کرو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدم کو تعظیم بجا لاو، اس سے زیادہ اس کا مفہوم نہیں ہے۔ فرشتوں کو آدم کی تعظیم بجالانے کا حکم کیوں دیا گیا؟ ہمارے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کی اطاعت اور بندگی کا امتحان تھا۔ کسی کا امتحان اسی چیز میں لیا جاتا ہے جو اس کے نفس پر شاق ہوسکے۔ فرشتوں کی خلقت چونکہ نور سے ہوئی ہے اور وہ خدا کی تسبیح وتقدیس کے لئے پیدا ہوئے ہیں، اس وجہ سے آدم علیہ السلام خاکی کی تعظیم بجا لانے کے حکم میں ان کے لئے ایک بڑی آزمائش تھی لیکن فرشتے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اصلی عزت و سرفرازی نور یا نار سے پیدا ہونے میں نہیں ہے بلکہ پیدا کرنے والے کے احکام کی بے چون وچرا تعمیل میں ہے۔ چنانچہ وہ اس امتحان میں پورے اترے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ فرشتوں کے اس سجدے سے آدم علیہ السلام کی بڑائی کا ایک پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے لیکن یہاں مقصود آدم کی بڑائی کا اظہار نہیں بلکہ فرشتوں کی بندگی و اطاعت کا اظہار ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ جو خدا کے مطیع وفرمانبردار ہوتے ہیں وہ نسل ونسب کے غرور میں مبتلا ہو کر ابلیس کی طرح اکڑا نہیں کرتے بلکہ وہ اس طرح کی ہر چیز کو خدا کا فضل واحسان سمجھتے ہیں اور اس فضل واحسان کا احساس ان کے اندر غرور وتکبر کے بجائے تواضع اور بندگی پیدا کرتا ہے۔ موقع کلام کے لحاظ سے یہ بات ان بنی اسرائیل کے لئے ایک سبق ہے جو نبی امی ﷺ کے معاملہ میں فرشتوں کی سی روش اختیار کرنے کے بجائے شیطان کی پیروی میں غرور نسل ونسب کے فتنے میں مبتلا ہو گئے تھے۔ جو لوگ فرشتوں کی طرف سے آدم کی اس تعطیم کو آدم کی علمی فضیلت کا نتیجہ سمجھتے ہیں میرے نزدیک ان کے اس خیال کے لئے کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ اپنی ذریت کے اسماء کا علم جس طرح خدا کے بتانے سے آدم علیہ السلام کا حاصل ہو گیا اسی طرح آدم کے بتانے سے فرشتوں کو حاصل ہو گیا، پھر اس میں آدم علیہ السلام کی ایسی فضیلت کا کیا پہلو ہے جس کی بنا پر فرشتوں کو ان کے سجدہ کا حکم دیا جائے۔ علاوہ ازیں اس بات کا بھی کوئی قوی ثبوت موجود نہیں ہے کہ فرشتوں کو آدم کی اس تعظیم کا حکم اسی وقت دیا گیا جب آدم علیہ السلام نے ان کو ناموں سے آگاہ کیا ہے۔ بلاشبہ سجدہ کے حکم کا ذکر یہاں تعلیم اسماء کے ذکر کے بعد ہی آیا ہے لیکن محض اتنی سی بات اس امر کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے کہ پہلی چیز اس دوسری چیز کا نتیجہ ہے۔ اول تو سجدے کے حکم کا بیان لفظ“اذ”سے شروع ہوتا ہے جو اس بات کے لئے ایک قوی قرینہ فراہم کرتا ہے کہ یہ ایک مستقل بات ہو، ضروری نہیں ہے کہ یہ پہلی بات کے بعد ہی پیش آئی ہو۔ ثانیاً قرآن مجید کے دوسرے مواقع سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کو آدم کے سجدے کا حکم نہ صرف آدم کی علمی فضیلت کے اظہار سے پہلے بلکہ ان کی پیدائش سے بھی پہلے دیا گیا تھا۔ مثلاً فرمایا ہے: وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَ فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ۔ (حجر : ۲۸-۳۱) اور یاد کرو جب کہ تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں تو جب میں اس کو مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک لوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گرجانا تو سارے فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے۔ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ اس مضمون کی آیتیں قرآن مجید میں اور بھی ہیں جن سے واضح ہے کہ فرشتوں کو آدم کے سجدے کا حکم آدم کی پیدائش سے پہلے دیا گیا تھا اور ان آیات سے ضمنًا یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اصل مقصود اس سجدے سے فرشتوں کی اطاعت ووفاداری کا امتحان ہی تھا، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یہاں آدم علیہ السلام کے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کئے جانے کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا ہے تاکہ اس امتحان میں فرشتوں کے لئے آزمائش کا جو پہلو ہے وہ ان کے سامنے واضح ہو کر آجائے۔ ہم اوپر اس حقیقت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ امتحان ہمیشہ اس چیز میں ہوا کرتا ہے جو نفس پر شاق ہو۔ فرشتوں کے لئے یہ بات بڑی ہی آزمائش کی تھی کہ وہ نور کے مخلوق ہونے کے باوجود آدم خاکی کو، جو سڑی ہوئی کیچڑ سے وجود میں آیا ہے سجدہ کریں لیکن وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ عزت وشرف بخشنے والی چیز درحقیقت خدا کی فرمانبرداری ہے نہ کہ نور یا نار سے پیدا ہونا، اس وجہ سے اس امتحان کے سخت ہونے کے باوجود اس میں پورے اترے لیکن ابلیس اپنے غرور کے سبب سے اس امتحان میں ناکام ہو گیا۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ بعض آیات میں سجدے کا ذکر آدم کی پیدائش اور ا ن کی صورت گری کے بعد آیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض آیات میں ترتیب مضمون اس طرح بھی ہے لیکن اس طرح کے مواقع پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقصود انسان پر اپنی نعمتوں کا بیان ہے نہ کہ یہ واضح کرنا کہ فلاں واقعہ فلاح واقعہ کے بعد پیش آیا ہے۔ اِلَّا اِبْلِيسَ: ابلیس، ابلَسَ سے افعیل کے وزن پر ہے۔ ابلس کے معنی غمگین ہونے، انکار کرنے اور مایوس ہونے کے ہیں۔ ابلیس دراصل اس جن کا لقب ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ قرآن مجید میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ جنات میں سے تھا۔ سورہ کہف میں ہے: وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّا اِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ اور یاد کرو جب کہ ہم نے کہا فرشتوں سے کہ سجدو کرو آدم کو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے، وہ جنات میں سے تھا، اس نے اپنے رب کے حکم سے انحراف کیا۔ قرآن مجید نے مکلف مخلوقات کی حیثیت سے تین مخلوقات کا ذکر کیا ہے۔ فرشتے، جنات اور بنی آدم۔ شیطان کوئی مستقل مخلوق نہیں ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے جو لوگ خدا کی نافرمانی کی روش اختیار کر لیتے ہیں وہ لوگ ابلیس کی ذریت اور اس کے اولیاء میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کے جنات اور انسان گمراہی پر پیدا نہیں کئے گئے، پیدا تو یہ ہوئے ہیں اسی فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے تمام جنوں اور انسانوں کو اختیار کی نعمت سے نوازا ہے، اس وجہ سے ان میں سے جو لوگ اپنے لئے گمراہی کے راستے ہی کو پسند کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اسی راستے پر چلنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس سنت کی قرآن مجید میں جگہ جگہ تفصیل فرمائی ہے۔ ہم اس کے مختلف پہلوؤں کی مناسب مواقع پر وضاحت کریں گے۔ یہاں ایک بات بعض لوگوں کو کھٹکے گی۔ وہ یہ کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا نہ کہ جنات کو تو ابلیس کو جو جنات میں سے تھا سجدہ نہ کرنے پر لعنت کا مستحق کیوں قرار دیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جنات اور فرشتوں میں اصلی فرق خصائص اور صفات کے پہلو سے ہے اپنی خلقت کے لحاظ سے جنات فرشتوں سے زیادہ دوری نہیں رکھتے، فرشتے نور سے پیدا ہوئے اور جنات نار سے۔ اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علی سبیل التغلیب جنات بھی اس حکم سجدہ میں شامل تھے، لیکن ان کے گمراہ فرد ابلیس نے سجدہ سے انکار کیا۔ یہ رائے ہمارے بعض پچھلے مفسرین نے بھی ظاہر فرمائی ہے اور مجھے یہ رائے قوی معلوم ہوتی ہے۔۱؂ (۱؂ قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں: او الجن ایضًا کانوا مامورین مع الملئکۃ لکنہ استغنی بذکر الملئکۃ عن ذکرھم فانہ اذا علم ان الاکابر مامورون بالتذلل لاحد والتوسل بہ علم ان الا صاغر ایض مامورون بہ والضمیر فی فسجدوا راجع الی القبیلتین (یا جن بھی فرشتوں کے ساتھ سجدہ کے حکم میں شامل تھے لیکن فرشتوں کے ذکر کے بعد جنات کے ذکر کی ضرورت اس وجہ سے باقی نہیں رہی کہ جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ بڑوں کو کسی کی تعظیم و تکریم کا حکم ہوا ہے تو اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ چھوٹے بھی اس حکم میں شامل ہیں۔ اس صورت میں فسجدوا کی جو ضمیر ہے وہ دونوں کی طرف لوٹے گی)۔
Top