Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
اور ہم نے کہا اے آدم رہا کر تو اور تیری عورت جنت میں اور کھاؤ اس میں جو چاہو جہاں کہیں سے چاہو اور پاس مت جانا اس درخت کے پھر تم ہوجاؤ گے ظالم86
86 ۔ زوجہ سے مراد مائی حوا ہیں جنہیں اللہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی دلجوئی اور تسکینِ خاطر کے لیے پیدا فرمایا۔ وَكُلَامِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا۔ اور جنت کے پھلوں اور میووں میں سے جہاں سے چاہو فراخی سے کھاؤ۔ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ ۔ قرآن سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم وحوا (علیہما السلام) کو جنت کے ایک مخصوص و متعین درخت سے روکا گیا مگر قرآن یا حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ کونسا درخت تھا اور نہ ہی اس تعیین کی کوئی ضرورت ہے۔ واعلم انہ لیس فی الظاھر ما بدل علی التعیین فلاحاجۃ ایضا الی بیانہ (کبیر ص 456 ج 1) فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ۔ ظالمین سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کی نافرمانی کی وجہ سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ یعنی اگر تم نے شجر ممنوعہ کھالیا تو تم نافرمانوں میں شامل ہوجاؤگے۔
Top