Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل96 یاد کرو میرے وہ احسان جو میں نے تم پر کئے  اور تم پورا کرو میرا قرار تو میں پورا کروں تمہارا قرار97 اور مجھ ہی سے ڈرو
96 ۔ اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں " اللہ کا بندہ " یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ اور بنی اسرائیل سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد مراد ہے۔ اور یہاں بنی اسرائیل سے ان یہودیوں کو خطاب کیا گیا ہے جو مدینہ اور اس کے قرب و جوار میں آباد تھے۔ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ پندونصیحت سے پہلے انعامات کا ذکر نہایت ہی مؤثر حکمت عملی ہے اور یہاں نعمت ہم جنس ہے اور اس سے مراد وہ مادی اور روحانی انعامات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ مثلاً دولت، حکومت، نبوت اور دوسرے وقتی انعامات جیسا کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ( سورة مائدہ) ان انعامات کی کسی قدر تفصیل آگے آرہی ہے۔ 97 ۔ یہ دوسرا امر ہے یہاں لفظ عہد دونوں جگہ مصدر ہے اور دونوں جگہ اپنے مفعول کی جانب مضاف ہے اور فاعل محذوف ہے۔ اي وَاَوْفُوْا بِعَھْدِکُمْ اِيَّايَ اُوْفِ بِعَھْدِيْ اِيَّاکُمْ یعنی جو عہد تم نے میرے ساتھ کیا تھا تم اسے پورا کرو تو جو عہد میں نے تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے میں اسے پورا کروں گا۔ وھو المفھوم من کلام قتادۃ و مجاھد ان کلیھما مضاف الی المفعول۔ ان فسر الایفاء باتمام العھد تکون الاضافۃ الی المفعول فی الموضعین (روح ص 242 ج 1) بنی اسرائیل نے تو اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ بنی اسماعیل میں پیدا ہونے والے آخری نبی پر ایمان لائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہ معاف کرنے اور انہیں جنت میں داخل کرنے کا عہد کیا تھا۔ چناچہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے۔ ان اللہ تعالیٰ کان عھدا الی بنی اسرائیل فی التورۃ انی باعث من بنی اسماعیل نبیا امیا فمن تبعہ وصدق بالنور الذی یاتی بہ ای بالقران غفرت ذنبہ وادخلتہ الجنۃ الخ (کبیر ص 484 ج 1، معالم ص 44 ج 1) یا مراد وہ عہد ہے جو آیت ذیل میں مذکور ہے۔ ۧوَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا ۭوَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ ۭلَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ ۚ۔ (سور مائدہ رکوع 3) ۔ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ ۔ یہ تیسرا امر ہے۔ جب تمہارا منعم حقیقی اور محسن تحقیقی میں ہی ہوں تو صرف مجھ ہی سے ڈرو، اگر تم مجھ سے ڈر کر میرے احکام کی تعمیل کرنے لگ جاؤگے تو کوئی تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔
Top