Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے بنی اسرائیل یاد کرو میرے احسان جو میں نے تم پر کئے105 اور اس کو کہ میں نے تم کو بڑائی دی تمام عالم پر
105 ۔ یہ ترغیب ہے۔ اس کی تفسیر گزر چکی ہے۔ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ یہاں عالمین سے مراد صرف اس زمانے کے تمام لوگ ہیں یعنی اس آیت میں نزول قرآن کے وقت موجودہ یہودیوں کے باپ دادوں کی، ان کی تمام ہم عصر اقوام پر فضیلت کا اظہار مقصود ہے۔ المراد فضلتکم علی عالمی زمانکم (کبیر ص 500 ج 1، قرطبی ص 376 ج 1، معالم ص 47 ج 1) المراد بالعلمین سائر الموجودین فی وقت التفضیل (روح ص 250 ج 1) لہذا اس سے بنی اسرائیل کی آنحضرت ﷺ اور آپ کی امت پر فضیلت لازم نہیں آتی۔ اور وجہ افضلیت کے لیے ہمیشہ کوئی امتیازی خوبی ہونی چاہیے اور وہ عقیدہ توحید ہے۔ زمانہ فترت میں صرف بنی اسرائیل ہی ایک ایسی قوم تھی جو مسلک توحید کی صدیوں پابند رہی۔ دنیا کی باقی قومیں کم وبیش شرک میں مبتلا تھیں لیکن رفتہ رفتہ قوم بنی اسرائیل بھی توحید سے دور ہوتی گئی۔ تاآنکہ حضور نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے زمانے تک یہودی کئی قسم کے شرکوں میں مبتلا ہوچکے تھے۔ وَاتَّقُوْا يَوْمًا۔ یہ ترہیب ہے۔ یَوْماً نکرہ ہے۔ اور بعد میں آنے والی اس کی صفات متعین کر رہی ہیں کہ اس سے مراد یوم آخرت ہے۔ دنیا میں جرم کی سزا سے بچنے کے لیے عام طور پر چار ذرائع نجات میں سے کوئی ایک ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر مجرم ان کے ذریعے قرار واقعی سزا سے بچ جاتے ہیں (1) اگر مجرم کا باپ یا دادا یا اوپر کا کوئی مورث یا کوئی اور دور ونزدیک کا رشتہ دار دین یا دنیا کے لحاظ سے بڑا با اثر اور بارسوخ آدمی ہو، لوگ اس کے دنیوی کارناموں سے متاثر ہوں یا اس کی دینی اور مذہبی خدمات کی وجہ سے اسے اللہ کا ولی مانتے ہوں اور اس سے دلی عقیدت رکھتے ہوں تو ایسے شخص سے تعلق رکھنے والے مجرم کو محض اس تعلق اور انتساب کی بنا پر چھوڑ دیا جاتا ہے (2) کسی با اثر اور صاحب اقتدار آدمی کی سفارش سے بھی مجرم کی سزا معاف کردی جاتی ہے۔ (3) بعض اوقات کچھ دے دلا کر مجرم بری کرالیا جاتا ہے (4) اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر زبردستی مجرم کو چھڑا لیا جاتا ہے۔ یہودیوں میں شرک اور بدعقیدگی اس درجہ راسخ ہوچکی تھی کہ ان کا خیال تھا کہ ان حربوں کے ذریعے آخرت کی سزا سے بھی بچا جاسکے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آگاہ کردیا کہ وہاں یہ چیزیں کام نہیں آئیں گی۔
Top