Jawahir-ul-Quran - Al-Muminoon : 50
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠   ۧ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے (عیسی) کو وَاُمَّهٗٓ : اور ان کی ماں اٰيَةً : ایک نشانی وَّاٰوَيْنٰهُمَآ : اور ہم نے انہیں ٹھکانہ دیا اِلٰى : طرف رَبْوَةٍ : ایک بلند ٹیلہ ذَاتِ قَرَارٍ : ٹھہرنے کا مقام وَّمَعِيْنٍ : اور جاری پانی
اور بنایا ہم نے41 مریم کے بیٹے اور اس کی ماں کو ایک نشانی اور ان کو ٹھکانا دیا ایک ٹیلہ پر جہاں ٹھہرنے کا موقع تھا اور پانی نتھرا42
41:۔ ” وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ الخ “ یہ توحید پر پانچویں نقلی دلیل ہے۔ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ بھی ہماری قدرت کاملہ اور وحدانیت کی واضح دلیل تھیں مریم صدیقہ، طبیہ و طاہرہ محض ہماری قدرت سے حاملہ ہوئیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ پیدا ہوئے اور پھر پیدا ہوتے ہی والدہ کی گود ہی میں توحید کا اعلان بھی کردیا۔ ” وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ الخ “ (مریم رکوع 2) یعنی میرا اور تم سب کا مالک اور کارساز اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لیے عبادت صرف اسی کی کرو اور حاجات میں مافوق الاسباب صرف اسی کو پکارو یہی سیدھی راہ ہے۔ ” رَبْوَةٍ “ کے لغوی معنی بلند زمین کے ہیں۔ ھی مارتفع من الارض دون الجبل (روح ج 18 ص 38) ۔ ربوہ سے مراد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں سب سے زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ ربوہ سے ارض بیت المقدس مراد ہے کیونکہ وہ دوسرے علاقوں کی نسبت بلند بھی ہے اور اس میں ندیاں بھی رواں دواں ہیں یہ قول حضرت ابن عباس امام قتادۃ، ضحاک اور کعب سے منقول ہے۔ قال ابن عباسھی بیت المقدس (خازن ج 5 ص 38) ۔ قال قتادۃ کنا نحدث ان الربوۃ بیت المقدس (ابن جریر) ۔ قال الضحاک و قتادۃ (الی ربوۃ ذات قرار و معین) ھو بیت المقدس فھذا واللہ اعلم ھو الاظہر (ابن کثیر ج 3 ص 246) ۔ قال قتادۃ وکعب بیت المقدس و زعم ان فی التوراۃ ان بیت المقدس اقرب الارض الی السماء (بحر ج 6 ص 408) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک مجوسی بادشاہ کے زمانے میں بیت لحم میں پیدا ہوئے۔ نجومیوں کے ذریعہ سے اس کی اطلاع ہوگئی۔ اب اس نے انہیں تلاش کرنا شروع کردیا تاکہ انہیں ہلاک کردیا جائے حضرت مریم اس بادشاہ کے ڈر سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو لے کر بیت المقدس چلی گئیں جب تک وہ بادشاہ زندہ رہا اس وقت تک وہیں رہیں۔ وذکر ان سبب ھذا الایواء ان ملک ذالک الزمان عزم علی قتل عیسیٰ (علیہ السلام) ففرت بہ امہ الخ (روح ج 18 ص 38) ۔ وسبب الایواء انھا فرت بابنھا عیسیٰ الی الربوۃ وبقیت بھا اثنتی عشرۃ سنۃ وانما ذھب بھما ابن عمھا یوسف ثم رجعت الی اھلھا بعد ان مات ملکھم (کبیر ج 6 ص 289) ۔ یا ربوۃ سے وہی وضع حمل کی جگہ مراد ہے کیونکہ اس کے بارے میں ارشاد ہے۔ ” فَنَا دٰھَا مِنْ تَحْتِھَا اَنْ لَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکَ تَحْتَکِ سَرِیًّا “ (مریم رکوع 2) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جگہ بلند تھی اور نیچے چشمہ یا ندی تھی (ابن کثیر) ۔ 42:۔ ” ذَاتَ قَرَارً “ پر امن اور فراخ جگہ۔ ” مَعِیْن “ بروزن فعیل، جاری اور تازہ پانی۔ (قرطبی و روح) ۔
Top