Jawahir-ul-Quran - Al-Muminoon : 6
اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ
اِلَّا : مگر عَلٰٓي : پر۔ سے اَزْوَاجِهِمْ : اپنی بیویاں اَوْ : یا مَا مَلَكَتْ : جو مالک ہوئے اَيْمَانُهُمْ : ان کے دائیں ہاتھ فَاِنَّهُمْ : پس بیشک وہ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ : کوئی ملامت نہیں
مگر اپنی عورتوں پر7 یا اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر سو ان پر نہیں کچھ الزام
7:۔ ” اِلَّا عَلٰے اَزْوَاجَهِمْ الخ “ یہ ما قبل سے مستثنی ہے مرد کو صرف دو قسم کی عورتوں کے ساتھ جنسی اختلاط کی اجازت دی گئی ہے۔ اول وہ عورت جو ازروئے شریعت اسلامیہ اس کی بیوی ہو۔ دوم وہ عورت جو شرعی طور پر اس کی زر خرید لونڈی ہو۔ دنیا میں اس دوسری قسم کا وجود باقی نہیں رہا۔ ” فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَاءَ ذٰلِکَ الخ “ جو لوگ مذکورہ بالا دونوں جگہوں کے علاوہ شہوت رانی کریں وہ ظالم اور حد سے گذرنے والے ہیں اور حلال سے حرام کی طرف بڑھنے والے ہیں۔ ای الظلمون المجاوزون الحد من الحلال الی الحرام الخ (خازن و معالم ج 5 ص 32) ۔ یہ آیت متعہ، لواطت، اور استمناء بالید کی حرمت پر دلیل ہے کیونکہ یہ تمام صورتیں وراء ذالک میں داخل ہیں۔ وفیہ دلیل علی تحریم المتعۃ والاستمناء بالکف لارادۃ الشھوۃ (مدارک ج 3 ص 88) ۔ و یدخل فیما وراء ذالک الزنا واللواط ومواقعۃ البھائم مما لا خلاف فیہ (روح ج 18 ص 7) ۔ روافض کہتے ہیں جس عوت سے متعہ کیا جائے چونکہ وہ بھی بیوی کے حکم میں ہے اس لیے وہ ” ازواجهم “ میں داخل ہے اور ” وراء ذالک “ میں داخل نہیں لہذا اس آیت سے نکاح متعہ کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اسکا جواب یہ ہے کہ متعہ والی بیوی ازروئے شریعت بیوی نہیں کیونکہ اس کے احکام شرعی زوجہ سے بالکل مختلف ہیں دونوں کا فرق سمجھنے سے پہلے متعہ کی حقیقت سمجھ لیجئے۔ نکاح متعہ کی صورت یہ ہے کہ ایک مرد ایک عورت کے ساتھ معین رقم کے بدلے معین تک نکاح کرے۔ اب دونوں کے احکام ملاحظہ ہوں جو شرعی طور پر ایک مرد کی بیوی ہو اس کے احکام حسب ذیل ہیں (1) اگر وہ فوت ہوجائے تو خاوند اس کا وارث ہوگا اور اگر خاوند فوت ہوجائے تو وہ اس کی وارث ہوگی (2) جو اولاد پیدا ہوگی وہ اس کے خاوند کی کہلائیگی۔ (3) خاوند کی جانب سے طلاق دئیے بغیر وہ اس کے نکاح سے باہر نہیں ہوسکے گی۔ (4) طلاق کے بعد عدت سے پہلے وہ کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکے گی لیکن ممتوعہ یعنی جس عورت سے کسی نے متعہ کیا ہو (1) اس کے اور متعہ کرنے والے کے درمیان وراثت جاری نہیں ہوگی (2) اولاد بھی شرعاً اس کے ساتھ ملحق نہ ہوگی۔ (3) طلاق کی ضرورت نہیں مدت ختم ہونے پر نکاح بھی ختم ہوجائیگا اور (4) عدت کی بھی ضرورت نہیں پہلے متعہ کی مدت ختم ہوتے ہی دوسری جگہ متعہ کرسکتی ہے۔ اس طرح ممتوعہ شرعی بیوی کے حکم میں داخل نہیں اور لا محالہ وراء ذالک ہی میں داخل ہے۔ وھذا یقتضی تحرم الزنی وما قلناہ من الاستمناء و نکاح المتعۃ لان المتمتع بھا لا تجری بحری الزوجات لا ترث ولا تورث، ولا یلحق بہ ولدھا، ولا یخرج من نکاحھا بطلاق یستانف لھا وانھا یخرج بانقضاء المدۃ التی عقدت علیھا وصارت کا لمستاجرۃ (قرطبی ج 12 ص 106) ۔
Top