Jawahir-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 106
اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ
اِذْ قَالَ : جب کہا لَهُمْ : ان سے اَخُوْهُمْ : ان کے بھائی نُوْحٌ : نوح اَلَا : کیا نہیں تَتَّقُوْنَ : تم ڈرتے
جب کہا ان کو ان کے بھائی نوح نے44 کیا تم کو ڈر نہیں
44:۔ ” اخوھم نوح “۔ ضمیر مجرور قوم کی طرف راجع ہے اور اخوت سے قومی اور خاندانی اخوت مراد ہے کیونکہ حضرت نوح (علیہ السلام) ان مشرکین ہی کی قوم اور انہی کے خاندان سے تھے اخوھم نسبا لا دینا (مدارک ج 3 ص 154) ۔ حقیقی اخوت کے علاوہ اخوت کی اور بھی کئی قسمیں ہیں مثلا قومی اخوت یعنی ہم قوم ہونا اس میں ہم مذہب ہونا ضروری نہیں، جیسا کہ حضرت نوح، ہود، صالح اور لوط (علیہم السلام) کو اپنی اپنی مشرک قوم کا بھائی کہا گیا۔ اور جنسی اخوت اس لحاظ سے تمام بنی آدم آپس میں بھائی بھائی ہیں اور دینی اخوت یعنی ایک دین و مذہب کے پیرو آپس میں دینی بھائی جیسا کہحضور ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا تھا ” اعبدوا ربکم واکرموا اخاکم “ یعنی عبادت تو اپنے رب کی کرو اور میں تمہارا بھائی ہوں میرا جو احترام اللہ نے تم پر فرض کیا ہے وہ بجا لاؤ لیکن میری عبادت نہ کرو۔ یہاں اخوت سے دینی اخوت مراد ہے جب آنحضرت ﷺ اپنی امت کے دینی بھائی ٹھہرے تو ظاہر ہے کہ اس ساری دینی برادری میں آپ سب سے بڑے بھائی اور سب سے افضل و اشرف قرار پائے۔ تقویۃ الایمان میں شاہ اسمعیل شہید (رح) کی عبارت کا یہی مفہوم ہے۔
Top