Jawahir-ul-Quran - Al-Qasas : 86
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّلْكٰفِرِیْنَ٘
وَمَا كُنْتَ : اور تم نہ تھے تَرْجُوْٓا : امید رکھتے اَنْ يُّلْقٰٓى : کہ اتاری جائے گی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الْكِتٰبُ : کتاب اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو تو ہرگز نہ ہوتا ظَهِيْرًا : مددگار لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
اور تو82 توقع نہ رکھتا تھا کہ اتاری جائے تجھ پر کتاب مگر مہربانی سے تیرے رب کی سو تو مت ہو83 مددگار کافروں کا
82:۔ یہ امر چہارم ہے جو، وجاعلوہ من المرسلین، پر متفرع ہے۔ یہ امر ثانی کے لیے بمنزلہ دلیل ہے یعنی جس طرح آپ کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ آپ پر اللہ کی وحی نازل ہوگی اور آپ منصب نبوت پر فائز ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنی رحمت سے آپ کو یہ منصب عطا فرمایا اسی طرح وہ محض اپنے فضل و احسان سے عزت و شان کے ساتھ مکہ میں داخل فرمائے گا۔ اس میں بھی موسیٰ (علیہ السلام) سے مماثلت ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے جب انہیں بچپن میں صندوق میں بند کر کے دریا کی لہروں کے حوالے کردیا تھا اس وقت کسی کے زاویہ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ وہ پیغمبر ہوگا۔ علی ہذا جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے روانہ ہوئے اور راستے میں آگ دیکھی اور وہاں سے آگ لینے کے لیے گئے اس وقت انہیں خیال تک نہ تھا کہ میں منصب نبوت پر سرفراز ہونے والا ہوں۔ 83:۔ یہ امر پنجم ہے اور فلن اکون ظہیرا للمجرمین پر متفرع ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عہد کیا تھا کہ وہ مجرموں کا تعاون نہیں کریں گے یہاںحضور ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ بھی مشرکین سے تعاون اور موافقت نہ کریں۔ ولا یصدنک الخ، آپ نہ تو کسی معاملے میں کافروں کے معاون بنیں اور نہ ان کے کہنے سے اللہ کے قرآن کی تبلیغ سے رکیں جبکہ اللہ نے قرآن کی آیتیں تبلیغ کی خاطر آپ پر نازل فرما دیں۔ آپ اللہ کی توحید کی دعوت دئیے جائیں اور دین میں مشرکین سے ہرگز موافقت نہ کریں۔ یہ خطابات اگرچہ بظاہرحضور ﷺ سے ہیں کیونکہ قرآن کے مخاطب اول آپ ہی ہیں لیکن اس سے مراد آپ کی امت ہے۔ الی ربک میں مضاف مقدر ہے ای الی عبادتہ جل و علا وتوحیدہ سبحانہ (روح ج 20 ص 130) (الی ربک) الی معفتہ و توحیدہ (ولا تکونن من المشرکین) قال ابن عباس ؓ الخطاب فی الظاھر للنبی ﷺ والمراد بہ اھل دینہ ای لاتظاھروا الکفار ولا توافقوھم (معالم ج 5 ص 154) ۔
Top