Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو مت کھاؤ سود دونے پر دونا197 اور ڈرو اللہ سے تاکہ تمہارا بھلا ہو  
197 حضرت شیخ نے فرمایا کہ ترغیب الی القتال کے بعد یہاں سے لیکر وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ تک ترغیب الی الانفاق ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کیوں نہیں کرتے خرچ کرنا تو درکنار تم تو کسی کو قرض بھی سود کے بغیر نہیں دیتے ہو آؤ اللہ کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا دوزخ کی آگ سے بچنے، اللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت کے استحقاق اور دخول جنت کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں انفاق فی سبیل اللہ کی طرف ایک عجیب انداز سے ترغیب فرمائی ہے پہلے مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کی سپرٹ پیدا کی اس کے بعد اچانک سود خوری سے ممانعت کے احکام نازل فرمادئیے۔ سودی کاروبار سے ممانعت بھی در اصل روح جہاد کی تقویت کے لیے ہے جہاد میں جان کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اور جو شخص اس قدر بخیل اور کنجوس ہو کہ اگر کسی قرض دے تو اس پر بھی سود وصول کرے اور خدا کے لیے قرض حسنہ کے طور پر ذرہ بھر کسی سے ہمدردی نہ کرسکے تو اس سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ پیاری جان کی قربانی دے گا۔ اس لیے سود پر قرض دینے منع فرمایا اور اس کے ضمن میں ہمجنسوں سے ہمدردی اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا سبق دیا۔ اَضعَافاً مُّضَاعَفَةً (دونے پر دونا) کی قید سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہاں سود مرکب سے منع کیا گیا ہے اور سود مفرد سے منع نہیں کیا گیا بلکہ یہ قید مراعات واقع کیلئے ہے کیونکہ جاہلیت میں سود مرکب (سود در سود) کا زیادہ رواج تھا۔ اس لیے اس سے منع فرمایا۔ لہذا اس قید سے سود مفرد کی حرمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا (روح ص 55 ج 4، کبیر ص 72 ج 3) یا یہ صفت سود خوری کی مزید قباحت ظاہر کرنے کے لیے ہے قالہ الشیخ الانور (رح) تعالیٰ وَاتَّقُوْ اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ سود خوری سے ممانعت کے بعد خدا سے ڈرنے کا حکم دیا گیا تاکہ پہلے تقویٰ کو مخدوش کرنے والے اعمال کا سدباب ہوجائے اور پھر تقویٰ اپنی کامل صورت میں جلوہ گر ہو۔ امید فلاح کو خوف خدا پر مرتب کر کے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مومن کو امید وبیم اور خوف ورجاء کے درمیان رہنا چاہیے۔ ایک طرف خدا کے عذاب سے ڈرتا رہے اور دوسری طرف اس کی رحمت ومغفرت کی امید بھی رکھے نہ بیباک ہوجائے اور نہ ناامید۔
Top