Jawahir-ul-Quran - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے ایمان والو یاد کرو15 احسان اللہ کا اپنے اوپر جب چڑھ آئیں تم پر فوجیں پھر ہم نے بھیج دی ان پر ہوا اور وہ فوجیں جو تم نے نہیں دیکھیں اور ہے اللہ جو کچھ کرتے ہو دیکھنے والا
15:۔ یا ایہالذین اٰمنوا اذکروا الخ یہ مومنوں کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اے ایمان والو ! پیغمبر (علیہ السلام) نے جاہلیت کی رسم کو توڑا ہے۔ کفار و منافقین آپ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تم ہمارے پیغمبر (علیہ السلام) کا ساتھ دینا اور کفار و منافقین کی مخالفت سے مت ڈرنا۔ میں تمہارا ناصر و حامی ہوں جس طرح اسباب کی ناموافقت کے باوجود غزوہ احزاب میں میں نے تمہاری مدد کی۔ غزوہ احزاب کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں۔ سنہ چار یا پانچ ہجری کو مشرکین عرب اور یہود نے متحد ہو کر فیصلہ کیا کہ عرب کے تمام معروف قبائل سے ایک عظیم فوج تیار کر کے مدینہ پر حملہ کیا جائے اور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔ چناچہ مختلف قبائل کے جواب اپنے اپنے سرداروں کے زیر کمان مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ قریش کا قائد ابو سفیان بن حرب، بنو اسد کا طلیحہ، غطفان کا عیینہ، بنو عامر کا عام بن طفیل، بنو سلیم کا ابو الدعور سلمی، بنو نضیر کا حیی بن اخطب وغیر اور بنو قریظہ کا کعب بن اسد تھا۔ ان کی مجموعی تعداد دس اور پندرہ ہزار کے درمیان تھا۔ جبحضور ﷺ کو ان کی روانگی کا علم ہوا تو آپ نے سلمان فارسی کے مشورے سے مدینہ منور کے گرد خندق کھودنے کا کام شروع کرادیا۔ جو مشرکین کی فوج پہنچنے سے قبل مکمل ہوگیا۔ مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تھی۔ دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے۔ درمیان میں خندق حائل تھی۔ اسی حال میں تقریباً ایک ماہ گذر گیا۔ اس دوران میں سنگباری اور تیرا اندازی کے بغیر کوئی باقاعدہ جنگ نہ ہوئی سوا چند انفرادی جھڑپوں کے۔ مشرکین نے مدینہ کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔ اور منافقین نے بھی اپنے قول و فعل سے مسلمانوں میں بد دلی اور بےاعتمادی کی فضا پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مدد کے لیے فرشتوں کی فوج اتاردی اور ساتھ ہی تند و تیز طوفانِ باد بھی بھیج دیا جس سے ان کے خیموں کی میخیں اکھڑ گئیں۔ رسیاں ٹوٹ گئیں۔ گھورے بدک کر بھاگنے لگے ان کی آنکھیں مٹی سے بھر گئیں ان کے دلوں پر ایسا رعب طاری ہوا کہ مشرکین کی فوجیں تتر بتر ہوگئیں اور شکست کھا کر بھاگ نکلیں۔ اذکرو نعمۃ اللہ۔ یہاں اللہ کے انعام سے غزوہ خندق میں فتح و نصرت مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہود و مشرکین کی عظیم فوجوں پر مسلمانوں کو عطا فرمائی۔
Top