Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
بیشک ہم نے اتاری تیری طرف کتاب سچی کہ تو انصاف کرے لوگوں میں جو کچھ سمجھاوے تجھ کو اللہ78 اور تو مت ہو دغابازوں کی طرف سے جھگڑنے والا
78 نواں حکم سلطانی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی احکام شرعیہ کی تعلیم فرما دی ہے۔ جب آپ سفر جہاد پر نکلیں تو فیصلے ظن وتخمین سے نہ کریں بلکہ قواعد شرعیہ کے مطابق کریں تاکہ آپ دھوکہ نہ کھا سکیں جیسا کہ طعمہ کے قصہ میں آپ کو دھوکہ دیا گیا) ۔ یہاں سے لیکر وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ عَظِیْماً تک ایک واقعہ سے متعلق ہے واقعہ یہ ہے کہ طعمہ بن ابیرق نامی ایک منافق نے ایک صحابی حضرت رفاعہ بن زید کے مکان میں نقب لگا کر چوری کی۔ مال مسروقہ میں کچھ ہتھیار اور آٹے کا ایک تھیلا تھا۔ اتفاق سے تھیلے میں سوراخ تھا جس سے آٹا چور کے گھر تک راستہ میں گرتا گیا۔ جب چور کو اس بات کا احساس ہوا تو بدنامی سے بچنے کے لیے اس نے مال مسروقہ زید بن یاسمین نامی ایک یہودی کے پاس بطور امانت رکھ دیا۔ صبح جب مالک مکان کو اس واردات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے بھتیجے حضرت قتادہ بن نعمان سے اس کا ذکر کیا انہوں نے تفتیش سے معلوم کرلیا کہ یہ حرکت بنو ابیرق کی ہے چناچہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا ماجرا کہہ سنایا جب بنو ابیرق کو اس کا علم ہو تو وہ باقاعدہ سازش کر کے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زید بن یاسمین پر چوری کا الزام لگایا اور قسمیں کھا کھا کر اور اپنے ایمان واخلاص کا واسطہ دے کر آنحضرت ﷺ کو یقین دلا دیا اور طعمہ بن ابیرق جو اصل چور تھا اس کو چوری کے الزام سے بالکل بری اور بےگناہ ثابت کردیا۔ چناچہ آپ نے ان منافقوں کی قسموں اور شہادتوں کو صحیح سمجھ کر یہودی کو چور اور طعمہ کو بےگناہ تصور کرلیا اور پھر یہودی کو چوری کی سزا دینے کا بھی ارادہ فرما لیا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں آنحضرت ﷺ کو اس اجتہادی لغزش پر تنبیہ فرمائی گئی۔
Top