Jawahir-ul-Quran - Al-Hajj : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
تحقیق اللہ خوش ہوا17 ایمان والوں سے جب بیعت کرنے لگے تجھ سے اس درخت کے نیچے پھر معلوم کیا جو ان کے جی میں تھا پھر اتارا ان پر اطمینان اور انعام دیا ان کو ایک فتح نزدیک
17:۔ ” لقد ؓ “ حصہ اول کے مضامین میں سے بشارت مؤمنین کا اعادہ ہے۔ اور ” المومنین “ سے وہ صحابہ کرام ؓ مراد ہیں جنہوں نے مقام حدیبیہ کے ایک درخت کے نیچے رسول خدا ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، یہ بیعت، بیعۃ الرضوان کے نام سے مشہور ہے، کیونکہ اس بیعت میں شریک ہونے والوں کے لیے اللہ کی رضا اور خوشنودی کا پروانہ نازل ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو اہل مکہ کے پاس اپنا پیغام دے کر بھیجا تھا۔ ان کی واپسی میں دیر ہوگئی اور یہ خبر پھیل گئی کہ مشرکین نے حضرت عثمان ؓ کو شہید کردیا ہے جب یہ خبر آنحضرت ﷺ پہنچی تو فرمایا قتل عثمان کا فوری بدلہ لیے بغیر ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔ چناچہ آپ نے تمام صحابہ ؓ کو بیعت کے بلایا اور کی کر کے درخت کے نیچے چودہ سو جاں نثاروں سرفروشوں نے پورے اخلاص کے ساتھ میدان جہاد میں ثبات و استقلال بلکہ جان تک دے دینے پر رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ قال رسول اللہ ﷺ لانبرح حتی نناجز القوم ودعا الناس الی البیعۃ۔ فبایعوہ علی ان یناجزوا قریشا ولا یفرو تحت الشجرۃ وکان سمرۃ وکان عدد المبایعین الفار واربعمائۃ (مدارک ج 4 ص 122) ۔ ” ما فی قلوبہم “ یعنی ان کا ایمان واخلاص، صدق نیت، دین سے محبت اور مشرکین کے مقابلے میں شدت و جلاوت (روح) ۔ ” السکینۃ “ اطمینان اور ربط قلب۔ ” فتحا قریبا “ فتح خیبر، مغانم کثیرۃ، غنائم خیبر (بحر، روح، قرطبی، کبیر) اللہ تعالیٰ کو اصحاب شجرۃ کی، ایمان و اخلاص، صدق نیت اور جذبہ جاں نثاری کے ساتھ پیغمبر (علیہ السلام) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی ادا اس قدر پسند آئی کہ ان کے لیے اپنی رضاء و خوشنودی کا پروانہ نازل فرما کر ان کے اہل جنت ہونے کا اعلان فرما دیا۔ کیونکہ آخرت میں رضائے الٰہی کا مظہر اور مقام جنت ہی ہے۔ آخرت میں اہل جنت کو جو سب سے بڑی نعمت حاصل ہوگی وہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے جس کا دوسرے مرمنوں کے لیے جنت میں داخل ہونے کے بعد اعلان ہوگا مگر صحابہ کرام ؓ کے لیے رضائے خداوندی کا اعلان دنیا ہی میں کردیا گیا۔ فیالہ من شرف۔ اور دنیا میں بھی انہیں ایک فتح قریب اور بہت سے اموال غنیمت (فتح خیبر اور غنائم خیبر) عطا کرنے کا وعدہ فرمایا۔ اور یہ وعدہ بہت جلد یعنی ماہ صفر سنہ 7 ہجری میں پورا ہوا۔ اہل شجرہ سے اللہ تعالیٰ یہ یہ رضا مندی کوئی وقتی نہ تھی، بلکہ دائمی تھی، کیونکہ اس کی بنیاد ان کے ایمان واخلاص پر تھی اور ایمان واخلاص کو اللہ تعالیٰ نے ان کی صفت لازمہ بنا دیا تھا جو زندگی بھر ان سے جدا نہیں ہوسکتی جیسا کہ آگے آرہا ہے ” والزمہم کلمۃ التقوی “ (فتح رکوع 3) ۔ اور سورة حجرات رکوع 1 میں فرمایا ” ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم۔ الایۃ “ یہی وجہ ہے کہ رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اس بیعت میں شریک تھے ان میں سے کوئی ایک بھی دوزخ میں نہیں جائیگا۔ لا یدخل النار انشاء اللہ من اصحاب الشجرۃ احد من الذی بایعوا تحتھا (صحیح مسلم ج 2 ص 303) ۔ امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ آپ کا انشاء اللہ کہنا محض بطور تبرک تھا نہ کہ بطور شک اس لیے علماء اہل سنت نے کہا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اصحاب شجرہ میں سے قطعاً اور یقینا کوئی بھی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا۔ قال العلماء معناہ لا یدخلہا اھد منہم قطعا کما صرح بہ فی الحدیث الذی قبلہ حدیث حاطب، وانما قال انشاء اللہ للتبرک لا للشک (نووی شرح صحیح مسلم ج 2 ص 303) ۔ ” مغانم “ ، فتحہا پر معطوف ہے یا اس کا ناصب وعدکم محذوف ہے۔ بقرینہ مابعد۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔ ” وکان اللہ عزیزا حکیما “ اگر اللہ چاہتا تو صلح کے بجائے تمہیں قریش سے بھڑا کر غالب کرسکتا تھا، لیکن اس نے صلح کرادی جو اس کی حکمت بالغہ کی رو سے لڑائی کی نسبت اسلام اور اہل اسلام کے لیے زیادہ مفید اور نافع تھی۔ چناچہ ہوا بھی ایسا ہی کما مر۔ اس موقع پر حضرت عثمان ؓ کو جو اعزازات نصیب ہوئے وہ کسی اور کو نہ مل سکے اول یہ کہ یہ بیت ان کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے لی گئی۔ دوم یہ کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کو حضرت عثمان ؓ کے ایمان واخلاص اور ان کے جذبہ ایثار و قربانی پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے بائیں ہاتھ کو حضرت عثمان ؓ کا ہاتھ قرار دے کر اپنے دائیں ہاتھ پر ان کی طرف سے خود بیعت فرمائی، کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ اگر وہ یہاں زندہ موجود ہوتے تو ضرور بیعت کرتے اس طرح ان کو وہاں موجود نہ ہونے کے باوجود بیعۃ الرضوان کی فضیلت حاصل ہوگئی۔
Top