Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 61
وَ اِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ قَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَ هُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا یَكْتُمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب جَآءُوْكُمْ : تمہارے پاس آئیں قَالُوْٓا : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَقَدْ دَّخَلُوْا : حالانکہ وہ داخل ہوئے ( آئے) بِالْكُفْرِ : کفر کی حالت میں وَهُمْ : اور وہ قَدْ خَرَجُوْا : نکلے چلے گئے بِهٖ : اس (کفر) کے ساتھ وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : وہ جو كَانُوْا : تھے يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے106 اور حالت یہ ہے کہ کافر ہی آئے تھے اور کافر ہی چلے گئے اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ چھپائے ہوئے تھے
106 جَاءُوْا کا فاعل وہی منافقین یہود ہیں جو کافروں سے دوستی رکھتے اور دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں یہاں ان کے نفاق اور خبث باطن کا بیان فرمایا، جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو دل و جان سے ایمان لا چکے ہیں۔ وَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْکُفْرِ جملہ قَالُوْا کی ضمیر سے حال ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ وہ اپنے دلوں میں کفر لے کر آتے ہیں اس لیے ان کا دعویٰ ایمان سراسر جھوٹا ہے۔ وَ ھُمْ قَدْ خَرَجُوْا بہ۔ یہ بھی قَالُوْا کے فاعل سے حال واقع ہے یعنی جب وہ آپ کی مجلس سے چلے جاتے ہیں تو اس وقت بھی ان کے دلوں میں وہ کفر جاگزیں ہوتا ہے اور آپ کے وعظ و تبلیغ اور قرآنی آیات کا ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اللہ کی آیت سن کر اور ان کا انکار کر کے کفر میں اور پختہ ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ وَالَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ فِیْ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّ ھُوَ عَلَیْھِمْ عَمًی۔ (حم السجدۃ ع 5) ۔
Top