Jawahir-ul-Quran - An-Najm : 38
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۙ
اَلَّا : کہ نہیں تَزِرُ وَازِرَةٌ : بوجھ اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا وِّزْرَ اُخْرٰى : بوجھ کسی دوسرے کا
کہ اٹھاتا نہیں24 کوئی اٹھانے والا بوجھ کسی دوسرے کا
24:۔ ” ان لا تزر “ ان صحیفوں کا مضمون یہ ہے کہ کوئی نفس کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائیگا۔ جس طرح ہر انسان کو اپنی ہی کمائی کی نیکیوں کا ثواب ملے گا اور دوسرے شخص کی نیکیاں اس کے اعمالنامے میں درج نہیں ہوں گی۔ قیامت کے دن ہر آدمی کی سعی و کوشش کا نتیجہ سامنے ہوگا اور ہر شخص کو اس کے اپنے ہی اعمال کے مطابق پوری پوری جزاء وسزا دی جائے گی۔ اور قیامت کے دن سب کا منتہاء اللہ کی ذات ہوگی اور سب اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان کی دعاء بھی دوسرے کے حق میں فائدہ مند نہیں ہوسکتی حالانکہ قرآن اور حدیث سے دوسروں کے دلیے دعا کرنے کی ترغیب ثابت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ حکم پہلی امتوں میں تھا اب امت محمدیہ کے حق میں منسوخ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” الحقنا بہم ذریتہم۔ الایۃ “ (الطور رکوع 1) ۔ یعنی باپ دادا کی نیکی سے ان کی اولاد کو ان کے درجات عطا ہوں گے۔ قال ابن عباس ؓ ھذا منسوخ الحکم فی ھذہ الشریعۃ بقولہ (الحقنا بہم ذریتہم) ۔ قال عکرمۃ کان ذالک لقوم و ابراہیم وموسی فاما ھذہ الامۃ فلہم ما سعوا وما سعی لھم غیرہم۔ (معالم و خازن ج 6 ص 268) ۔ اور اگر ” ما سعی “ سے مراد ایمان ہو جیسا کہ سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے تو اس صورت میں منسوخ ماننے کی ضرور نہیں۔ یعنی کسی انسان کو اس کے ایمان کے بغیر کسی چیز کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ ایمان کے بغیر کسی چیز کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ ایمان کے بغیر کسی کی نہ دعا مفید ہے نہ اپنی کوئی نیک عمل۔ تحقیق یہ ہے کہ ایک شخص کے دعا و استغفار کے دوسرے مومن کے حق میں کوئی نزاع واختلاف نہیں یہ سب کے نزدیک جائز اور مفید ہے اور قرآن سے ثابت ہے (1) وصل علیہم ان صلوتک سکن لھم۔ (2) ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان (حشر رکوع 2) ۔ اختلاف اس میں ہے کہ ایک شخص کے عمل کا ثواب دوسرے شخص کو ملتا ہے یا نہیں۔ چناچہ معتزلہ اور شوافع اس کے قائل نہیں، علامہ ابن قیم نے اس حدیث کا جواب دیتے ہوئے جس میں دوسرے شخص کی طرف سے غلام آزاد کرنے کا ذکر ہے، لکھا ہے کہ اس کا یہ مطلب یہ کہ دوسرے شخص کی طرف سے غلام آزاد کر کے اس کیلئے دعاء کی جائے۔ البتہ عبادتِ مالیہ کا ثواب احناف، شوافع وغیرہ سب کے نزدیک دوسرے کو بخشنا جائز ہے۔ باقی رہا تلاوتِ قرآن کا ثواب توحنفیہ کے نزدیک اس کا ہبہ جائز ہے لیکن شافعیہ کے نزدیک جائز نہیں۔ امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں اس پر متعدد حدیثیں پیش کی ہیں باقی رہا یہ شبہہ کہ مال مویشی کا ثواب کسی میت کو ہبہ کرنا ” وجعلوا للہ مما ذرا من الحرث والانعام نصیبا فقالوا ھذا للہ بزعمہم وھذا لشرکائنا۔ الایۃ “ (رکوع 16، سورة انعام) کے خلاف ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا ایصال ثواب سے کوئی ٹکراؤ نہیں کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ مشرکین اپنے معبودانِ باطلہ کو حاجت روا، کارساز اور مافوق الاسباب نافع و ضار سمجھ کر ان کی خوشنودی اور انکا تقرب حاصل کرنے کے لیے جانوروں میں ان کے حصے مقرر کرتے تھے جو صریح شرک ہے لیکن ایصال ثواب میں یہ چیز نہیں پائی جاتی۔
Top