Jawahir-ul-Quran - An-Najm : 7
وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰىؕ
وَهُوَ : اور وہ بِالْاُفُقِ : افق پر تھا الْاَعْلٰى : بالائی۔ اعلیٰ
اور وہ تھا اونچے کنارہ پر5 آسمان کے
5:۔ ” فاستوی “ یہ غار حراء کے پاس پیش آنے والے واقعہ کی طرف اشارہ ہے ” الافق الاعلی “ آسمان کا وہ حصہ جو دور سے زمین کے ساتھ ملا ہوا نظر آتا ہے۔ ” قاب “ وہ فاصلہ جو کمان کے وسط سے وتر تک ہوتا ہے اس طرح ہر کمان میں صرف ایک قاب ہوا۔ اس لیے ترکیب میں قلب ماننے کی ضرورت نہیں جیسا کہ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قابی قوس تھا۔ عن مجاھد و الحسن ان قاب القوس ما بین وترھا و مقبحہا، ولا حاجۃ الی القلب (روح ج 27 ص 48) ۔ حضرت شیخ (رح) فرماتے ہیں یہ اصل میں ” قاب قوس “ تھا پھر اس کو تثنیہ کیا گیا اور جب مرکب کا تثنیہ بنایا جائے تو علامت تثنیہ کبھی صرف ایک حرف کے ساتھ اور کبھی دونوں جزؤوں کے ساتھ لگائی جاتی ہے یہاں علامت تثنیہ دوسرے جزء کے ساتھ لگائی جاتی ہے یہاں علامت تثنیہ دوسرے جزء کے ساتھ لگائی گئی ہے (رضی) ۔ اس طرح اس کا اصل ” قابی قوسین “ ماننے کی ضرورت نہیں اہل عرب کا طریقہ تھا کہ جب دو آدمی آپس میں دوستی اور بھائی چارہ بناتے تو اپنی اپنی کمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیتے اس طرح کہ ایک کا قاب دوسرے کے قاب پر منطبق ہوجاتا اور پھر ان کو جدا کرکے ان سے ایک ایک تیر چلاتے جس سے ان کا مقصد یہ ہوتا کہ آج وہ دونوں بھابی ہیں اور ایک کی رضا دوسرے کی رضا ہے اور ایک کی ناراضی دوسرے کی ناراضی ہے۔ (روح) ۔ ” او “ بمعنی ” بل “ ہے (مدارک، روح) ۔ یعنی جبریل (علیہ السلام) اپنی اصلی اور حقیقی صورت میں افق آسمانی پر سیدھے کھڑے ہوئے نمودار ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے جب ان کو دیکھا تو بےہوش ہوگئے۔ جبریل (علیہ السلام) نے انسانی شکل میں آگے بڑھے اور آپ کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ دو کمانوں کی مقدار، بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوگئے اور آپ کو سینے سے لگا کر دبایا جب آپ ہوش میں آئے تو فرمایا اے جبریل ! میرے تو خیال میں بھی نہیں تھا کہ اللہ کی کوئی مخلوق ایسی شکل و صورت پر بھی ہے۔ یہ پہلی وحی کے بعد کا واقعہ ہے۔ وکانت ھذہ الرویۃ الاولی فی اوائل البعثۃ بعد ماجاءہ جبریل (علیہ السلام) اول مرۃ فاوحی اللہ الیہ صدر سورة (اقرا) ثم فتر الوحی۔ حتی تبدی لہ جبریل ور سول اللہ ﷺ بالابطح فی صورتہ التی خلقہ اللہ علیہا (ابن کثیر ج 4 ص 248) ۔ آنحضرت ﷺ نے جبریل (علیہ السلام) کو اپنی زندگی میں دو بار اس کی اصلی صورت میں دیکھا ہے ایک بار زمین میں جس کا زیر تفسیر آیتوں میں ذکر ہے اور ایک بار آسمان میں جس کا ذکر آگے ” ولقد راہ نزلۃ اخری “ میں آرہا ہے آپ کے علاوہ کسی پیغمبر نے جبریل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں نہیں دیکھا۔ قیل ما راٰہ احد من الانبیاء فی صورتہ غیر محمد علیہ الصلوۃ والسالم مرتین، مرۃ فی السماء و مرۃ فی الارض (بیضاوی) ۔
Top