Jawahir-ul-Quran - Al-A'raaf : 116
قَالَ اَلْقُوْا١ۚ فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ
قَالَ : کہا اَلْقُوْا : تم ڈالو فَلَمَّآ : پس جب اَلْقَوْا : انہوں نے ڈالا سَحَرُوْٓا : سحر کردیا اَعْيُنَ : آنکھیں النَّاسِ : لوگ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ : اور انہیں ڈرایا وَجَآءُوْ بِسِحْرٍ : اور وہ لائے عَظِيْمٍ : بڑا
کہا ڈالو پھر جب انہوں نے ڈالا113 باندھ دیا لوگوں کی آنکھوں کو اور ان کو ڈرایا اور لائے بڑا جادو
113: جب جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں میں جادو چل گیا اور حاضرین کو یوں معلوم ہونے لگا کہ پوری وادی خطرنکا سانپوں سے بھر گئی ہے۔ جادوگروں کے اس عظیم فریب کو دیکھ کر لوگ دہشت زدہ ہوگئے۔ “ سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ ” اور “ یُخَیَّلُ اِلَیْهِ مِنْ سَحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی ”(طٰہٰ رکوع 3) ۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یوں محسوس ہونے لگا گویا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑ رہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں کی لاٹھیوں اور رسیوں کی حقیقت میں کوئی انقلاب نہیں آیا تھا اور وہ حقیقت میں سانپ نہیں بنی تھیں بلکہ یہ محض ایک فریب نظر تھا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جادوگروں نے رسیوں اور لاٹھیوں کے اوپر کے حصے پر مختلف رنگوں سے سانپوں جیسے نقش و نگار بنا رکھتے تھے۔ رسیوں کے اوپر پارہ لگا تھا اور لاٹھیاں اندر سے خالی تھیں اور ان کے خلا میں پارہ بھرا ہوا تھا جب ان کو میدان میں پھینکا گیا تو سورج کی گرمی کی وجہ سے ان میں حرکت پیدا ہوگئی اور وہ ایک دوسری پر لوٹ پوٹ ہونے لگیں اور دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہونے لگا کہ پوری وادی سانپوں سے بھر گئی ہے۔ “ و یقال انھم طلوا تلک الجبال بالزئیق ولونوھا و جعلوا داخل العصی زئیقا ایضاً والقوھا علی الارض فلما اثر حر الشمس فیھا تحرکت والتوی بعضھا علی بعض حتی تخیل للناس انھا حیات ”(روح ج 9 ص 35) ۔
Top