Jawahir-ul-Quran - Nooh : 26
وَ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا
وَقَالَ نُوْحٌ : اور کہا نوح نے رَّبِّ لَا تَذَرْ : اے میرے رب نہ تو چھوڑ عَلَي : پر الْاَرْضِ : زمین (پر) مِنَ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں میں سے دَيَّارًا : کوئی بسنے والا
اور کہا14 نوح نے اے رب نہ چھوڑیو زمین پر منکروں کا ایک گھر بسنے والا مقرر
14:۔ ” وقال نوح “ حضرت نوح (علیہ السلام) نے آخر اللہ تعالیٰ سے دعا کی : میرے پروردگار ! ان مشرکین میں سے اس دھرتی پر ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑ۔ ” انک ان تذرھم “ اگر تو ان کو ہلاک نہیں کرے گا اور ان کو زندہ چھوڑ دے گا تو وہ تیرے مومن بندوں کو بھی مکر و فریب سے گمراہ کردیں گے اور ان کی نسلوں میں بھی مشرکوں اور فاجروں کے سوا کوئی مومن اور موحد نہیں ہوگا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بد دعاء پہلے تھی، قوم کی غرقابی بعد میں ہوئی۔ لیکن نظم قرآن میں دونوں کا ذکر معکوس ہے یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ واوؤ مطلق جمع کے لیے ہوتی ہے اور ترتیب کی مقتضی نہیں۔ اہل بدعت کہتے ہیں اس آیت سے حضرت نوح (علیہ السلام) کا غیب دان ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ یہ مشرکین تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے اور ان کی نسلوں میں فساق و فجار کے سوا کوئی نہیں ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے مطلع فرما دیا تھا کہ اب ان میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لائے گا اور نہ ان کی نسل سے کوئی مؤمن پیدا ہوگا۔ چناچہ ارشاد ہے۔ واوحی الی نوح انہ لن یومن من قومک الا من قد امن۔ الایۃ (ہود رکوع 4) اور جو علم وسائل سے حاصل ہو وہ علم غیب نہیں ہوتا۔
Top