Jawahir-ul-Quran - Al-Anfaal : 72
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓئِكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا١ۚ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰوَوْا : ٹھکانہ دیا وَّنَصَرُوْٓا : اور مدد کی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلِيَآءُ : رفیق بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يُهَاجِرُوْا : اور انہوں نے ہجرت نہ کی مَا لَكُمْ : تمہیں نہیں مِّنْ : سے وَّلَايَتِهِمْ : ان کی رفاقت مِّنْ شَيْءٍ : کچھ شے (سروکار) حَتّٰي : یہانتک کہ يُهَاجِرُوْا : وہ ہجرت کریں وَاِنِ : اوراگر اسْتَنْصَرُوْكُمْ : وہ تم سے مدد مانگیں فِي الدِّيْنِ : دین میں فَعَلَيْكُمُ : تو تم پر (لازم ہے) النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر عَلٰي : پر (خلاف) قَوْمٍ : وہ قوم بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : معاہدہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
جو لوگ ایمان لائے72 اور گھر چھوڑا اور لڑے اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں اور جن لوگوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور جو ایمان لائے اور گھر نہیں چھوڑا تم کو ان کی رفاقت سے کچھ کام نہیں جب تک وہ گھر نہ چھوڑ آئیں اور اگر وہ تم سے مدد چاہیں دین میں تو تم کو لازم ہے ان کی مدد کرنی مگر مقابلہ میں ان لوگوں کے کہ ان میں اور تم میں عہد ہو اور اللہ جو تم کرتے ہو اس کو دیکھتا ہے
72: یہ ہجرت اور جہاد کی ترغیب ہے۔ یہاں مومنین کے تین فرقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ فریق اول : مہاجرین یعنی جنہوں نے اللہ کے دین کی خاطر اپنا وطن مکہ چھوڑا اور جہاد کیا۔ فریق ثانی انصار یعنی مدینہ کے اصل باشندے جو ہجرت سے قبل ایمان لا چکے تھے اور جنہوں نے مہاجرین کو رہائش کے لیے جگہ مہیا کی اور دامے درمے ان کی مدد کی۔ ان دونوں فریقوں یعنی مہاجرین وانصار کے درمیانحضور ﷺ نے بھائی چارہ قائم فرمادیا۔ ان دونوں کے بارے میں فرمایا “ اُوْلٓئِکَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَاءُ بَعْض ” یعنی مسلمانوں کی یہ دونوں جماعتیں جو حضور علیہ الصلوہ والسلام کے ساتھ ہیں یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق اور معاون و مددگار ہیں ان میں سے ایک کی صلح سب کی صلح اور ایک سے جنگ سب سے جنگ تصور ہوگی۔ ولایت سے ولایت نصرة وتعان مراد ہے اس صورت میں یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں یا ولایت سے مراد عام ہے جو نصرت ووراثت دونوں کو شامل ہے۔ اس صورت میں یہ آیت اس سورت کی آخری آیت “ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلیٰ بِبَعْضٍ ” سے منسوخ ہوگی۔ یعنی اب توارث کا مدار نسب پر ہوگا نہ کہ ہجرت پر۔ حضرت شیخ (رح) کے نزدیک پہلا معنی راجح ہے۔ فریق ثالث۔ مستضعفین یعنی وہ مسلمان جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہجرت نہ کرسکے اور مکہ ہی میں رہ گئے اور بادل ناخواستہ مشرکین کے ساتھ بدر میں آئے۔ “ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُھَاجِرُوْا الخ ” سے ایسے مسلمانوں کا حکم بیان کیا گیا یعنی جو مسلمان اپنے وطن دار الحرب ہی میں رہے اور دار الاسلام کی طرف ہجرت نہیں کی اگر انہوں نے کافروں کے ساتھ صلح و جنگ کا معاہدہ کرلیا تو دار الاسلام کے سملمان یعنی مہاجرین وانصار اس کے پابند نہیں ہونگے۔ البتہ اگر دار الحرب کے مسلمان دینی کاموں میں کافروں کے مقابلہ میں دار الاسلام کے مسلمانوں سے مدد طلب کریں تو ان پر ان کی امداد کرنا لازم ہے بشرطیکہ جن کافروں کے مقابلے میں مدد طلب کی گئی ان کے اور دارالاسلام کے آزاد مسلمانوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہو۔
Top