Kashf-ur-Rahman - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کی گردن کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے اور ہم قیامت کے دن انسان کا نامہ اعمال نکال کر اس کے لئے رکھ دیں گے جس کو وہ کھلا ہوا پائے گا۔
- 13 اور ہم نے ہر انسان کی برائی اور بھلائی کو اس کی گردن کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے خواہ یہ برے بھلے اعمال ہوں یا شقاوت وسعادت ہو اور ہم قیامت کے دن انسان کا نامہ اعمال اس کے لئے نکال کر رکھ دیں گے جس کو وہ کھلا ہوا پائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا ہے۔” عملہ وما قدر علیہ “ ‘ مطلب یہ ہے کہ اس کے اعمال جو وہ اپنے اختیار سے کرنے والا ہے اور اس کا مقدر اور اس کی قسمت گلے میں لٹکی ہوئی ہے۔ بعض حضرات نے فقط قسمت اور بعض نے فقط اعمال لئے، مفسرین کے چند اقوال میں سے ہم نے بعض قول کو اختیار کرلیا ہے۔ خلاصہ :- یہ ہے کہ انسان جو آئندہ عمل کرنے والا ہے اور جو باتیں اس کو پیش آنے والی ہیں سب اس کی گردن میں لٹکی ہوئی ہیں جو اس سے جدا ہونے والی نہیں اور وہ ہو کر رہیں گی اور قیامت کے دن ہر شخص کے روبرو اس کا نامہ اعمال پیش ہوگا جو لپٹا ہوا نہیں بلکہ کھلا ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی بری قسمت کے ساتھ برے عمل ہیں کہ چھوٹ نہیں سکتے وہی نظر آئیں گے قیامت میں۔
Top