Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگار بنتے لَمَثُوْبَةٌ : تو ٹھکانہ پاتے مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور اگر وہ لوگ ایمان لاتے اور اس قسم کی حرکات سے پرہیز کرتے تو خدا کے ہاں سے بہتر بدلہ پاتے کاش ان کو اتنی سمجھ ہوتی2
2 اور اگر یہ یہودی ایمان لے اتٓے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے اور اس قسم کی حرکات شنیعہ اور بد اعمالیاں ترک کردیتے تو خدا تعالیٰ کے ہاں ان کا معاوضہ اور بدلہ ان باتوں سے بدرجہا بہتر ہوتا جن میں وہ مبتلا ہیں کاش ان کو اتنی سمجھ ہوتی۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ یہودی جو دنیا کے لالچ اور پیغمبر آخر الزماں کی عداوت میں ہر قسم کی بد اعمالی کا ارتکاب کرتے پھرتے ہیں۔ اگر خدا کے آخری نبی پر ایمان لے آتے اور ان بد اعمالیوں سے پرہیز کرتے تو اللہ کے ہاں جو کچھ اس کا معاوضہ ملتا وہ اس فائدہ سے کہیں زیادہ ہوتا جس کو وہ سحر اور کفر کے ذریعہ حاصل کر رہے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی یہود نے اپنے دین اور کتاب کا علم چھوڑدیا اور لگے تلاش میں اعمال سحر کے اور سحر لوگوں میں دو طرف سے آیا ایک حضرت سلیمان کے عہد میں آدمی اور شیطان ملے رہتے تھے۔ ان شیطانوں سے سیکھا اور یہود اس کو نسبت کرتے تھے۔ حضرت سلیمان کی طرف کہ ہم کو ان سے پہنچا ہے اور جن و انس پر ان کی حکومت اسی جادو کے زور سے تھی سو اللہ تعالیٰ نے بیان کردیا کہ یہ کام کفر کا ہے سلیمان کا کام نہیں اس کے عہد میں شیطانوں نے سکھایا ہے اور دوسرے ہاروت و ماروت کی طرف سے وہ شہر بابل میں دو فرشتے تھے جو بصورت آدمی رہتے تھے۔ ان کو علم سحر معلوم تھا جو کوئی طالب اس کا جاتا اول کہہ دیتے کہ اس میں ایمان جاتا رہے گا۔ پھر اگر وہ چاہتا تو سکھا دیتے۔ اللہ تعالیٰ کو آزمائش منظور تھی۔ سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسے علموں سے آخرت کا کچھ فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے اور دنیا میں بھی ضرر پاتے ہیں اور بغیر حکم خدا کے کچھ نہیں کرسکتے اور علم دین اور علم کتاب سیکھتے تو اللہ کے ہاں ثواب پاتے۔ (موضح القرآن) یہود کی عام حالت یہ تھی کہ وہ کوئی نہ کوئی شرارت کرتے ہی رہتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی مجلس میں انہوں نے ایک اور شرارت شروع کی۔ مجلس میں شریک ہونے والوں کا قاعدہ تھا کہ جب کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تھی تو کہا کرتے تھے اس کو پھر فرما دیجیے یا ہماری رعایت کیجیے یا ہمارا انتظار کیجیے یا ہماری طرف بھی ملاحظہ فرمائیے۔ بہرحال اس قسم کے جملے بولا کرتے تھے یہودی تو ذومعنی الفاظ بولنے کے عادی تھے۔ انہوں نے اپنی زبان میں سے گالی اور برائی کا ایک کلمہ ایسا نکالا کہ عبرانی میں تو اس کے معنی گالی تھے اور عربی میں اس کے معنی رعایت کرنے اور لحاظ رکھنے کے تھے۔ وہ لفظ تھا راعناً اس لفظ کو یہ حضور کی مجلس میں تقریر کے دوران میں بولتے مسلمان سمجھتے کہ یہ بھی ہماری طرح حضور ﷺ کو اپنی طرف مخاطب کرنی کی غرض سے بولتے ہیں تاکہ سرکار تقریر میں ان کا بھی لحاظ رکھیں اس لئے مسلمان بھی راعنا کہنے لگے۔ آگے کی آیت میں اس کا رد فرماتے ہیں اور مسلمانوں کو دوسرا لفظ تعلیم فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top