Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 18
صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ
صُمٌّ : بہرے بُكْمٌ : گونگے عُمْيٌ : اندھے فَهُمْ : سو وہ لَا : نہیں يَرْجِعُونَ : لوٹیں گے
وہ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں سو وہ واپس نہیں ہوں گے یعنی گمراہی سے3
3۔ ان کی حالت اس گروہ کی حالت کے مشابہ ہے جس نے کہیں آگ جلائی ہو ، پھر جب اس آگ نے اس گروہ کے ارد گرد اور آس پاس کی تمام چیزوں کو روشن کردیا ہو تو اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے نور کو سلب کرلیا ہو اور ان کو سخت تاریکیوں میں اس طرح چھوڑ دیا ہو کہ ان کو اپنے آس پاس کی کوئی چیز نظر نہ آتی ہو ۔ وہ بہرے ہیں گونگے ہیں اور اندھے ہیں ، لہٰذا وہ گمراہی سے ہدایت کی جانب نہیں لوٹیں گے۔ ( تیسیر) مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح روشنی حاصل کرنی کی غرض سے کچھ لوگ شب کی تاریکی میں آگ جلائیں اور آگ کی روشنی سے فائدہ حاصل کرنا چاہیں اور جب وہ آگ ان لوگوں کے چاروں طرف کی چیزوں کو روشن کر دے تو ایک دم آگ کی روشنی کو خدا تعالیٰ زائل کر دے اور وہ لوگ اندھیروں میں متحیر اور حیرت زدہ ہو کر رہ جائیں ۔ یہی حالت ان منافقین کی ہے کہ اسلام کی روشنی سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں مل جل کر مال غنیمت بھی حاصل کریں اور نکاح وغیرہ کے تعلقات قائم کر کے ورثہ کا بھی فائدہ اٹھائیں اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے محفوظ بھی رہیں ۔ لیکن ٹھیک اس وقت جبکہ ان کی یہ حرکات بآور ہونے کے قریب تھیں اور ان کے نفاق کا انشاء ہوگیا اور ان کا بھانڈا پھوٹ گیا اور یہ حیران رہ گئے یا یہ مطلب ہے کہ دنیا میں چند روز اپنی مکاری سے فائدہ اٹھاتے رہے مگر مرنے کے بعد گونا گوں عذاب میں مبتلا کئے گئے ۔ بہرحال ان کی حیرانی اور ان کے تحیر اور ان کے کفر و نفاق کی تاریکیوں میں مبتلا ہونے کی مثال بیان کی گئی ہے اور چونکہ اس تحیر کی وجہ سے ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ نہ تو بات سنتے ہیں نہ سیدھی راہ کو کسی سے دریافت کرسکتے ہیں اور نہ راست پر چل سکتے ہیں اور بالکل اس جماعت کی طرح جس کی آگ کا نور اور روشنی ختم ہوچکی ہو اور وہ تصور حیرت بن کر رہ گئی ہو ۔ ان بدبختوں کی حالت ہوگئی ہے تو بھلا اب یہ کیونکہ کفر کی تاریکیوں اور اندھیروں سے نکل کر اسلام کی طرف آسکتے ہیں ۔ کہیں بہر ا اور گونگا اور اندھا بھی سیدھی راہ پر لگ سکتا ہے ، اس لئے فرمایا فھم لا یرجعون (تسہیل)
Top