Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 223
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ١۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ١٘ وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نِسَآؤُكُمْ : عورتیں تمہاری حَرْثٌ : کھیتی لَّكُمْ : تمہاری فَاْتُوْا : سو تم آؤ حَرْثَكُمْ : اپنی کھیتی اَنّٰى : جہاں سے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقَدِّمُوْا : اور آگے بھیجو لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے وَاتَّقُوا : اور دوڑو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم مُّلٰقُوْهُ : ملنے والے اس سے وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں سو اپنی کھیتی میں جس روش سے چاہو آئو اور اپنے لئے آگے بھی کچھ بھیجو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ تم یقینا اس کے حضور میں پیش ہونیوالے ہو اور اے پیغمبر ﷺ ایمان والوں کو بشارت دے دیجئے3
3 تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں یعنی وہ زمین جس میں کھیتی کی غرض سے بیج ڈالتے ہیں لہٰذا تم اپنی کھیتی میں جس روش سے چاہو اور جس طرح چاہو اور جس کیفیت سے چاہو آئو مگر آئو کھیتی میں اور اپنے لئے آگے کی بھی کچھ فکر کرو اور آئندہ کیلئے بھی ایسے نیک اعمال کرتے رہو جس سے تم آگے چل کر فائدہ اٹھائو اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس بات کو خوب جان لو اور یقین کرو کہ تم اللہ تعالیٰ سے ملاقی ہونے والے ہو اور اس سے ملاقات کرنے والے اور اس کے حضور میں حاضر ہونے والے ہو اور اے نبی ! ایمان والوں کو بشارت دے دیجئے کہ جس ملاقات کی ان کو اطلاع دی جارہی ہے وہ ملاقات ان کے لئے نافع اور خوش آئند ہوگی۔ (تیسیر) یہ قاعدہ کہ جب مختلف تمدن اور مختلف تہذیبیں آپس میں ہم آغوش ہوتی ہیں اور جب ایک تہذیب کا دوسری تہذیب سے میل ہوتا ہے تو نئے نئے سوال پید ا ہوتے ہیں مکہ والوں کی معاشرت اور ڈھنگ کی تھی جب مدینے پہونچے تو وہاں کے لوگوں کی معاشرت اور رنگ کی پائی یہود کا کچھ خیال محبوس کا کچھ خیال مدینہ والوں کی کچھ اور تہذیب زمانہ جاہلیت میں حائضہ عورتوں کو بالکل اچھوت سمجھتے تھے محبوس تو حائضہ عورت کو گھر سے ہی نکال دیا کرتے تھے۔ یہود کا طریقہ بھی یہی تھا کہ حائضہ عورت کے ساتھ نہ کھاتے نہ پیتے نہ ایک گھر میں رہتے اس کے مقابلہ میں نصاریٰ کے ہاں کچھ پرہیز نہ تھا حتیٰ کہ وہ ہم بستری سے بھی پرہیز نہ کرتے تھے اور حیض والی عورتوں سے مجامعت کرنے میں احتراز نہ کرتے تھے ا سی طرح عورتوں کے پاس جانے کا ایک قصہ درپیش تھا۔ مکہ والے عورت سے ہر طرح لذت اندوز ہوتے تھے یہود کا خیال تھا کہ اگر مختلف آسن اور ہیئت کا استعمال کیا گیا تو بعض صورتوں میں بچہ بھینگا پیدا ہوگا انصار کی عورتیں اس کی عادی نہ تھیں چناچہ جب مکہ کے بعض مہاجرین نے انصاری عورتوں سے شادی کی تو اپنی عادت کے موافق جماع میں مختلف پہلو اختیار کئے انصاری عورتوں نے اس پر اعتراض کیا اور کہا ہم سے الگ رہو۔ دربار رسالت میں بعض عورتوں نے شکایت بھی کی کہ میرا خاوند مجھ کو ہر ترکیب اور ہر ہیئت سے استعمال کرنا چاہتا ہے یعنی مختلف پہلوئوں سے ہم بستری کرنا چاہتا ہے اس پر بعض حضرات نے سوال کئے ۔ حضرت حق کی جانب سے چند ضابطے مقرر کردئیے گئے جن کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) جب عورت کو حیض آئے تو اس سے جدا رہو۔ ابتداء جدا رہنے کا لوگ مطلب یہ سمجھے کہ گھر سے نکال دیا کرو مگر نبی کریم ﷺ نے فرمایا گھروں سے جدا کرنا یہ عجمیوں کی رسم ہے جدا رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے ہم بستر نہ ہو۔ (2) ان کے ساتھ کھانے پینے کو جائز رکھا بلکہ ناف سے لیکر گھٹنوں تک کے علاوہ اس عورت کے ساتھ باقی جسم سے فائدہ اٹھانے کی بھی اجازت دی گئی حضرت مسروق نے بیوی عائشہ ؓ سے دریافت کیا ام المومنین جب عورت حائضہ ہو تو مرد اس سے کیا کرسکتا ہے اور کہاں تک اجازت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا سب کچھ کرسکتا ہے مگر شرمگاہ سے بچے ایک روایت میں یہ ہے کہ جماع نہ کرے۔ تیسرا لفظ یہ ہے کہ آزار سے اوپر اوپر جو چاہے کرے۔ ابن جریر ، عبداللہ بن سعد انصاری نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ؐ! عورت جب حائضہ ہو تو اس کے خاوند کو کیا جائز ہے اور درست ہے۔ ارشاد فرمایا ازار سے اوپر اوپر (3) حیض ختم ہوجانے اور خون سے پاک ہوجانے کے بعد ان کے پاس حسب دستور آنے جانے کی اجازت ہے اگر دس دن پورے کرکے خون بند ہو تو بلا کسی انتظار کے اور اگر دس دن سے کم ہوں مگر عادت کے موافق ہوں تو غسل کا ایک نماز کا وقت گذر جانے کا انتظار کیا جائے اور اگر دس دن سے کم ہوں مگر عادت کے خلاف ہوں تو مقررہ عادت کے دنوں کا انتظار کرنا چاہئے۔ (4) ہر حال میں استعمال صرف اس مقام کا جائز ہوگا جس کی اجازت ہے رہا دوسرا مقام تو اس کی نہ کبھی اجازت ہوئی اور نہ اس کا کبھی حکم دیا گیا لہٰذا وہ بحالہ ممنوع اور حرام رہے گا۔ (5) مجامعت کرتے وقت ہر ہیئت کو اختیار کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ عورت کو تکلیف نہ ہو اور کسی نسوانی مرض میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو کھیت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف کھیت میں آئو خواہ آنے کا کوئی طریقہ اختیار کرو مگر آئو اسی زمین میں جہاں بیج ڈالنا ہے اور اس سے کھیتی یعنی اولاد پیدا ہونے کی توقع اور امید ہے۔ ایک شخص نے حضرت ابن عباس ؓ سے دریات کیا کہ عورت سے غیر فطری فعل کا کیا حکم ہے فرمایا مجھ سے کفر کی بات کا سوال نہ کر۔ ایک اور شخص نے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انی شئتم فرمایا ہے اے ابن عباس ؓ میں تو اپنی بیوی سے غیر فطری فعل کو جائز سمجھتا ہوں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا ! ارے احمق اس کا مطلب یہ ہے کہ کھڑے بیٹھے اور آگے پیچھے سے جائو مگر شرم گاہ سے اور طرف تجاوز نہ کرو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً منقول ہے کہ جو شخص عورت سے غیر فطری فعل کرتا ہے وہ ملعون ہے وقد موا لا نفسکم کا مطلب اعمال صالحہ ہیں جو دوسرے عالم میں نفع دینے والے ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیک اولاد کے حصول کی جانب اشارہ ہو یعنی نیک اولاد کی نیت اور خواہش رکھو صرف خط نفس مقصود نہ ہو۔ بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جو شخص بیوی کے پاس جانے سے پہلے بسم اللہ الھم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقتنا یہ دعا پڑھ لیتا ہے اس کی اولاد شیطان کے اثر سے محفوظ رہتی ہے احکام بیان کرنے کے بعدتقویٰ اور پرہیز گاری کا حکم دیا جیسا کہ قرآن کا قاعدہ ہے کیونکہ پرہیز گاری اور تقویٰ کی روشن ہی انسان کو معاصی سے روکتی اور احکام کا پابند بناتی ہے دوسرے ٹکڑے میں یہ بات سمجھائی ہے کہ خدا کے روبرو جانے کا یقین رکھو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خدا کی جزا اور سزا سے ملاقات کرنے کا یقین رکھو جب کہ اکثر مفسرین اسی طرح تفسیر کرتے ہیں۔ حضرت حق نے اپنے کلام کی کیا بہترین ترکیب رکھی ہے پہلے احکام فرمائے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ ان احکام کی پابندی آسان ہو پھر ارشاد فرمایا اس مالک حقیقی کے روبر وجانے اور حساب کتاب دینے کا یقین رکھو تاکہ تقویٰ کی دولت نصیب ہوسکے کیونکہ جن لوگوں کو خدا کی جناب میں پیش ہونے کا یقین ہوگا اور جو حشرونشر کا مراقبہ کرتے رہیں گے اور جن کی آنکھوں کے سامنے دوزخ و جنت کا منظر ہوگا اور جن کو حاکم کی باز پرس کا خطرہ لگا رہے گا وہی دوڑیں گے اور ابن ہی کو ت قوے کی روش اختیار کرنی آسان ہوگی اور آخر میں ایمان رکھنے والوں اور یقین کرنے والوں کے لئے بشارت کا اعلان فرما دیا چونکہ قیامت کا یقین اور خدا کی پیشی میں حاضر ہونے پر ایمان تقویٰ کا موجب ہے اور تقویٰ اور امرونواہی کی پابندی کا موجب ہے۔ لہٰذا جو لوگ احکام کے پابند رہیں گے وہی نجات دائمی کی بشارت کے مستحق ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جس راہ سے چاہو جائو لیکن کھیتی ہی میں کھیتی ۔ کھیتی وہی جہاں تخم ڈالئے تو آگے اور آگے کی تدبیرکرو یعنی اس صحبت میں نیت چاہئے اولاد کی تو ثواب ہو۔ (موضح القرآن) بعض حضرات نے وقدموا سے یہ مراد لیا ہے کہ پارسا عورتوں سے شادی کیا کرو۔ (واللہ اعلم) (تسہیل)
Top