Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 242
كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهٖ : اپنے احکام لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَعْقِلُوْنَ : سمجھو
اسی طرح اللہ تعالیٰ احکام تمہارے لئے صاف صاف بیان فرماتا ہے تا کہ تم سمجھو2
2 اور سب مطلقہ عورتوں کے لئے دستور کے مطابق متاع یعنی فائدہ پہنچانا اور سلوک کرنا ہے اور یہ متاع ان لوگوں پر ایک حق ہے جو کفر و شرک سے بچنے والے ہیں یعنی مسلمان ہیں ۔ خواہ یہ حق و جو بی ہو یا اس کا پورا کرنا مستحب ہو۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنے احکام صاف صاف بیان کرتا ہے تا کہ تم عقل سے کام لو اور ان احکام کو سمجھو اور عمل کرو۔ ( تیسیر) ہم نے اوپر متعلقہ عورتوں کی چار قسمیں بیان کی تھیں ۔ دو کا حکم بیان ہوچکا۔ باقی دو کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے چونکہ اس آیت کا مضمون اوپر والی آیتوں کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے اس لئے ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں اور سب مطلقہ عورتیں کہا ہے کیونکہ پہلی آیتوں سے صرف اس عورت کے لئے جوڑے کا وجوب معلوم ہوا تھا جس کا مہر مقرر نہ ہوا ہو اور ہم بستری سے پہلے ہی اس کو طلاق دے دی ہو تو ایسی عورت کو کپڑوں کا ایک جوڑا دینا واجب تھا۔ باقی تین قسموں کا حکم اس آیت میں بیان فرمایا کہ ان کو بھی ایک ایک جوڑا دے دو تو اچھا ہے یعنی اگرچہ ان کو مہر مثل یا مہر مقرر یا مقرر کا نصف ملتا ہے پھر بھی ان کو ایک ایک جوڑا دے دو تو یہ مستحق ہے۔ قرآن کریم میں جو حقا ً لفظ آیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ استحبابی حق ہے وجوبی نہیں اور متاع سے مراد کپڑوں کا ایک جوڑا ہے اور معروف سے مراد وہی ایک کرتہ ایک لمبی چادر اور ایک سر بند اور اگر لفظ متاع ہے مراد مہر ہو تو اب معنی یہ ہوں گے کہ جس عورت کا مہر مقرر نہ تھا اور اس کو ہم بستری سے پہلے طلاق دی گئی اس کو تو صرف ایک جوڑا دینا واجب ہے باقی مطلقہ عورتوں کو مہردینا واجب ہے ۔ کسی کو پورا کسی کو نصف کسی کو مہر مثل کا پورا یہ سب صورتیں اوپر عرض کی جا چکی ہیں اور حضر ت شاہ صاحب (رح) نے بھی اپنے حاشیہ میں فرما دی ہیں ہاں اس تقریر پر جبکہ متاع کے معنی مہر کے ہوں تو حقا ً کے معنی وجوب کے ہوں گے اور یہ مطلب ہوگا کہ یہ مہر ادا کرنا مسلمانوں پر واجب ہے ، اب رہا جوڑے کا استحباب تو وہ دوسرے دلائل سے ثابت ہوگا ، ہم نے تیسیر میں دونوں معنی کا لحاظ رکھا ہے ، حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پہلے خرچ فرمایا تھا یعنی جوڑا اس اطلاق پر کہ مہر نہ ٹھہرا ہوا اور ہاتھ نہ لگایا ہو ، یہاں سب پر حکم فرمایا ، سب طلاق والیوں کو جوڑا دینا بہتر ہے اور اس پہلی کو ضرور ہے ، حضرت شاہ صاحب (رح) نفقوں پر فرماتے ہیں ، یہاں حکم نکاح اور طلاق کے تمام ہوئے ( موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے جس پہلی کو ضرور فرمایا ہے وہ وہی ہے جس کا مہر نکاح کے وقت مقرر نہ کیا جائے اور ہم بستری سے قبل اس کو طلاق دے دی جائے ، باقی تین قسمیں وہی ہیں جو ہم اوپر عرض کرچکے ہیں یعنی مہر مقرر اور ہم بستری سے قبل طلاق ، اس صورت میں نصف مہر، مہر مقرر اور ہم بستری کے بعد اس صورت میں پورا مہر ، مہر مقرر نہیں اور ہم بستری کے بعد طلاق اس صورت میں مہر مثل کا پورا ، ان تینوں صورتوں میں مہر کے ساتھ جوڑا دینا مستحب ہے اور پہلی صورت میں واجب ہے یہاں تک طلاق اور نکاح وغیرہ کا حکم ختم ہوگیا۔ اب آگے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب ہے جو اعمال خیر اور بر کی بہت اہم قسم ہے اور جس کی فرضیت کا اوپر ذکر بھی آچکا ہے اور اس ترغیب کے ساتھ امم سابقہ کی امتوں میں سے کسی گروہ کا ذکر بھی بطور تمہید فرمایا ہے۔ یہ تمہید بھی ہے اور ترغیب کے لئے معاون بھی ہے اسی طرح جہاد اور انفاق کی ترغیب کے بعد بھی طالوت اور جالوت کی جنگ کا ذکر فرمایا ہے ، جس سے ثابت قدمی اور میدان جنگ میں صبر کی ترغیب اور توکل علی اللہ کی تائید ہوتی ہے پھر جنگ کا تذکرہ کرنے کے بعد جنگ کا فلسفہ بیان فرمایا ہے۔ غرض دوسرے پارے کے ختم تک تمام مضامین ایسے باہم مربوط ہیں جن میں کسی ربط بیا ن کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ( تسہیل)
Top