Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 242
كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهٖ : اپنے احکام لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَعْقِلُوْنَ : سمجھو
اسی طرح اللہ اپنی آیتوں کی تمہارے لیے وضاحت کرتا ہے تاکہ تم سمجھو۔
یہاں كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ الایۃ کا ٹکڑا بطور اظہار احسان ہے اور اس سے، جیسا کہ ہم دوسری جگہوں پر واضح کرچکے ہیں، ان آیات کی نوعیت واضح ہوتی ہے جن کی طرف کذالک کا اشارہ ہے۔ ہم بیان کرچکے ہیں کہ عموماً یہ ٹکڑا ان آیات کے بعد آتا ہے جن کی حیثیت توضیح مزید کی ہوتی ہے اور جو اپنے باب کے اصل احکام کے بعد لوگوں کے اندر سوال یا مزید جستجو اور تلاش پیدا ہونے کے بعد نازل ہوئی ہیں۔ نظمِ قرآن کے طالبوں کو بہت سے مقامات میں ان سے بڑی قیمتی رہنمائی ملتی ہے اس وجہ سے ان کو نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ اگلی آیات 243 تا 253 کا مضمون : یہاں ذرا پیچھے مڑ کر سلسلہ کلام کو ذہن میں پھر تازہ کرلیجیے۔ ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں کہ اصل بیان تو بیت اللہ کے تعلق سے جہاد و انفاق کا ہو رہا تھا لیکن انفاق کی بحث نے یتیموں کی صلاح و فلاح اور ان کی ماؤں کے ساتھ نکاح کا سوال سامنے کردیا اور اس طرح نکاح و طلاق سے متعلق مناسب وقت مسائل بیان کرچکنے کے بعد اصل بیان جہاد و انفاق کا پھر شروع ہوگیا۔ آگے کے مضامین کا خلاصہ اور ان کا نظم : آگے کے مطالب کی ترتیب یوں ہے کہ پہلے بنی اسرائیل کے ایک واقعہ کا حوالہ دیا ہے کہ وہ ایک بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے دشمنوں کے ڈر سے اپنا وطن چھور کے بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح انہوں نے اپنے لیے اخلاقی اور سیاسی موت اختیار کرلی۔ اس واقعے کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود مسلمانوں کو متنبہ کرنا ہے کہ انہوں نے مکہ سے مدینہ کو جو ہجرت کی ہے تو یہ موت اور دشمن سے فرار نہیں ہے بلکہ کفر اور فتنہ سے فرار ہے اور اصل مقصد اس سے جانیں بچانا نہیں بلکہ اللہ کے دین کی نصرت اور اس کی راہ میں جہاد کے لیے منظم ہونا ہے۔ اس تمہید کے بعد مسلمانوں کو جہاد و انفاق پر ابھارا ہے اور ساتھی ہی بنی اسرائیل کی اس جنگ کا کسی قدر تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کی تحریف ان کے ہاں بھی بعینہ اسی مقصد کے لیے ہوئے ہوئی تھی جس مقصد کے لیے مسلمانوں کو یہاں جہاد پر ابھارا جا رہا ہے۔ یعنی بنی اسرائیل نے بھی یہ جنگ اپنے قبلہ کی آزادی کے لیے لڑی تھی اور مسلمان بھی اپنے قبلہ ہی کی آزادی کے لیے اٹھ رہے تھے۔ بنی اسرائیل اپنی اس جنگ کے مختلف مراحل میں جن آزمائشوں سے گزرے اور جن فتنوں میں مبتلا ہوئے وہ بڑے ہی سبق آموز تھے اس وجہ سے مسلمانوں کو جو بعینہ انہی مراحل سے گزرنے کے لیے کمر بستہ ہو رہے تھے۔ ان کی سرگزشت کا یہ حصہ سنا دینا ضروی تھا تاکہ مسلمان اس سے سبق حاسل کریں اور ان فتنوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں جو آگے کے مراحل میں پیش آسکتے ہیں۔ اس کے بعد چند آیات میں نبی ﷺ کو مخاطب کر کے یہ فرمایا ہے کہ اس سرگزشت کے ذکر سے مقصود داستاں سرائی نہیں ہے بلکہ یہی کچھ تمہارے سامنے بھی آنے والا ہے اور اس سے تمہاری نبوت کی تصدیق ہوگی لیکن بنی اسرائیل خود اپنے آئینے میں بھی تمہاری تصویر دیکھ لینے کے باوجود اسی طرح اپنی ضد اور مخالفت پر اڑے رہیں گے، سو ان کی مخالفت کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں ہے خدا تمہاری نصرت فرمائے گا۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔
Top