Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 93
وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ١ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو ذُوْ عُسْرَةٍ : تنگدست فَنَظِرَةٌ : تو مہلت اِلٰى : تک مَيْسَرَةٍ : کشادگی وَاَنْ : اور اگر تَصَدَّقُوْا : تم بخش دو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے
اور اگر مدیون تنگ دست ہو تو اس کو اس کے خوش حال ہونے تک مہلت دینی چاہئے اور رہی یہ بات کہ تم اس تنگ دست کو معاف ہی کردو تو یہ تمہارے لئے اور بھی بہت ہے بشرطیکہ تم سمجھو1
1۔ اور اگر مدیون صاحب حسرت اور تنگدست ہو تو اس کو اس کے خوش حال اور آسودہحال ہونے تک مہلت دینے کا حکم ہے اور اس وقت تک کے لئے ایسے مدیون کو مہلت دینی چاہئے جس وقت تک اس کا ہاتھ با فراغت ہو اور رہی یہ بات کہ تم اپنا فرض اور لینا بالکل ہی معاف کردو اور مطالبہ ترک کردو تو یہ تمارے لئے مہلت دینے سے زیادہ بہتر اور بدرجہا اچھا ہے بشرطیکہ تم اس بہتری کو سمجھو اور تم کو عماف کردینے کے ثواب کی خبر ہو۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اگر مدیون تنگ دست ہے تو اس کو مرفہ الحال ہونے تک مہلت دو اور بالکل ہی قرض کو اس کے ذمہ سے معاف کردینا یہ مہلت دینے سے زیادہ اچھا ہے اور ایسا کرنے میں مہلت دینے سے زیادہ ثواب اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس مہلت ہی کو تصدیق فرمایا ہو اور مطلب یہ ہو کہ مہلت دیدیا کرو ، کیونکہ مہلت دینا ایک قسم کا صدقہ ہے اور یہ صدقہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ ( واللہ اعلم) عمران بن حصین ؓ سے مرفوعا ً منقول ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے کوئی مسلمان جو اپنے مدیون کی مدت دین پوری ہونے کے بعد اس کو مہلت دیتا ہے تو مہلت کے ہر دن میں اس کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے ۔ بہر حال ظاہر معنی وہی ہیں جو ہم نے پہلے ذکر کئے ہیں اور وہی عام مفسرین کی رائے ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن عرش الٰہی کے سایہ میں سب سے پہلے اس شخص کو جگہ دی جائے گی ۔ جو تنگدست مدیون کو مہلت دیتا ہے یا اس کو معاف کردیتا ہے اور اپنا مطالبہ یہ کہہ کر چھوڑ دیتا ہے کہ میرا جو کچھ تیرے ذمہ نکلتا ہے وہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوش نودی کی غرض سے تجھ پر صدقہ کرتا ہوں اور یہ کہہ کر قرضہ کی دستاویز کو جلا دیتا ہے۔ اس روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح حضرت عثمان ؓ اور ابی الیسر وغیرہ سے مروی ہے کہ جس نے مقروض کو مہلت دی یا اس کے ذمہ سے اپنے قرضہ کو گرا دیا تو یہ شخص قیامت کے دن عرش الٰہی کے سایہ میں ہوگا ۔ حضرت ابو قتادہ ؓ کا ایک واقعہ ہے کہ وہ اپنے مقروض سے قرض مانگنے گئے تو وہ چھپ گیا انہوں نے اس سے دریافت کیا تو نے چھپنے کی کیوں کوشش کی ۔ اس نے کہا ناداری اور مفلسی کی وجہ سے ابو قتادہ ؓ نے کہا قسم کھا کر تو واقعی مفلس ہے اس نے قسم کھائی کہ واقعی میں مفلس ہوں اس پر ابو قتادہ ؓ نے دستاویز منگا کر اس کے حوالے کردی اور کہا میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے جس ۔۔۔۔ نے تنگ دست مقروض کو مہلت دی یا اس کو معاف کر کے سبکدوش کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو قیامت کی سختیوں سے نجات دے گا ۔ مسلم کی وہ روایت تو مشہورہی ہے کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص کی فرشتے جب جان نکالنے آئے تو اس سے دریافت کیا کہ تو نے کوئی نیک کام کیا ہے اس نے کہا میں نے تو کبھی کوئی بھلا کام نہیں کیا ۔ فرشتوں نے کہا یاد کر شاید تجھے کوئی اپنی نیکی یاد آجائے اس نے کہا میں ایک کاروباری آدمی ہوں لوگوں کو قرض بھی دیا کرتا تھا لیکن جب میں اپنے کارندوں کو تقاضے کے لئے بھیجتا تھا تو یہ فرمائش کردیا کرتا تھا کہ خوش حال مقروض کو مہلت دے دینا اور تنگدست کو در گزر کردینا ۔ شاید اللہ تعالیٰ مجھ سے در گزر فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ موت کو حکم دیا کہ ہمارے اس بندے کو در گزر کردو اور اس کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرو ۔ بہر حال اس با ب میں بہت سی روایتیں ہیں۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جس طرح قرض خواہ کو رعایت کرنے کا حکم ہے اسی طرح مقروض کو بھی تاکید ہے کہ قرض کو ادا کر دے اور مقروض نہ مرے۔ بخاری نے ابو موسیٰ ؓ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کبیرہ گناہوں کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ مقروض مرا ہو اور قرض کی ادائیگی کے لئے کچھ چھوڑ کے بھی نہ مرا ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے بخاری و مسلم نے روایت کی ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے جو بندہ ادائیگی کی نیت سے قرض لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا قرض ادا کردیتا ہے اور جو لوگوں کا مال کھا جانے کی نیت سے قرض لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو تباہ و برباد کردیتا ہے اور فرمایا نبی کریم ﷺ نے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید کیا جائے پھر زندہ کیا جائے پھر شہید کیا جائے۔ اور اس کے ذمہ کسی کا دینا ہو تو وہ جب تک قرض ادا نہیں کرے دے گا جنت میں نہ جاسکے گا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جب دیکھا سود موقوف ہو اب لگو مفلس سے تقاضا کرنے یہ نہ چاہئے بلکہ فرص دو اور اگر توفیق ہو تو بخش دو ۔ ( موضح القرآن) اب آخر دوسرے احکام کو بیان کرنے سے قبل قیامت کے دن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور رب العالمین کی پیشی میں حاضر ہونے کا ذکر کیا جاتا ہے تا کہ جو احکام دیئے گئے ہیں ۔ ان کی تعمیل یہ سمجھ کر کرو کہ ایک دن خدا کے سامنے جانا ہے اور وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ ملنا ہے۔ (تسہیل)
Top