Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
کیا تم اور لوگوں سے کہتے ہو نیک کام کو اور تم نے اپنے آپ کو بھلا رکھا ہے یعنی خود عمل نہیں کرتے حالانکہ تم کتاب یعنی توریت بھی پڑھتے ہو تو کیا پھر تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔1
1۔ اور حق کو باطل اور ناحق کے ساتھ مخلوق نہ کرو اور حق بات کو جان بوجھ کر چھپائو نہیں اور نماز کی پابندی کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھا کرو کیا تم اور لوگوں کو بھلے اور نیک کام کرنی کی تعلیم دیتے ہو اور حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو اس بھلے کام سے فراموش کئے بیٹھے ہو حالانکہ تم کتاب توریت پڑھتے ہو تو کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے کہ دوسروں کو نیک کام کی ترغیب دینا اور خود اس کام کو نہ کرنا کیسا برا ہے۔ ( تیسیر) خود غرض اور حرض و ہوا کے بندے احکام شرعیہ کو دو طرح بدلتے تھے ایک تو حق بات کو چھپالیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بات توریت میں نہیں ہے اور اگر کوئی بات آ ہی پڑتی تھی تو اس میں توجیہ اور تاویل کردیا کرتے تھے جیسا کہ آج کل بھی علماء سوء کا یہی طریقہ ہے کہ امر حق کا کتمان کرتے ہیں اور اگر کوئی آیت یا حدیث پیش کردے تو اس کا مطلب میں عجیب و غریب تاویلات کرتے ہیں اور کوئی عبادت مقدر نکال دیتے ہیں یا حقیقت اور مجاز کی بحث شروع کردیتے ہیں غرض ان دونوں طریقوں سے علماء یہود کو منع کیا گیا کہ نہ تو سچی بات کو چھپائو اور نہ حق و باطل کو خلط ملط کرو جبکہ تم ان باتوں کی برائی کو جانتے بھی ہو تو جان بوجھ کر ایسا کرنا اور بھی سخت گناہ ہے اس کے ساتھ ان کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا گیا اور یہ جو فرمایا رکوع کرنیوالوں کے ساتھ رکوع کرو تو شاید اس غرض سے فرمایا ہو کہ یہود کی نماز میں رکوع نہیں تھا یا رکوع سے مراد نماز ہو کہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھا کرو یعنی علیحدہ علیحدہ نماز نہ پڑھا کرو بلکہ جماعت سے پڑھا کرو کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز پڑھنے سے پچیس یا ستائیس درجے فضلیت رکھتی ہے یا یہ مطلب ہو کہ محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب ساتھ نمازپڑھا کرو۔ پہلی آیت میں پیغمبر (علیہ السلام) اور قرآن پر ایمان لانے کا حکم دیا تھا اور اس آیت میں اعمال کی پابندی کے لئے تاکید کی گئی تا کہ ایمان کامل ہوجائے اور یہ ظاہر ہے کہ اعتقاد اور اعمال کی جس قدر اصلاح ہوگی اسی قدر سیات اور بد اعمالیوں سے نفرت بڑھے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وارکعوا مع الراکعین کے معنی یہ ہوں کہ عاجزی اور انکساری کی خو اختیارکرو اور عجازی کرنیوالوں کے ساتھ عاجزی اختیار کرو تا کہ اپنے کو بڑا سمجھنے کی بیماری کم ہو اور محمد ﷺ کی اتباع کی طرف رغبت ہو۔ واللہ اعلم آگے ان کی ایک مذموم حرکت پر ان کو تنبیہ فرماتے ہیں کیونکہ ان کا یہ بھی شیوہ تھا کہ اگر کوئی یہودیوں میں سے اسلام قبول کرلیتا تھا اور ان سے دریافت کرتا تھا کہ ہمارا یہ فعل کیسا ہے تو اس کی تحسین کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ پیغمبر واقعی وہی نبی آخر الزماں ہے جس کی تعریف توریت میں کی گئی اور اسی طرح اپنے احباب کی خاص مجالس میں بھی اس کا اظہار کرتے تھے اور جب کوئی بھی ان سے کہتا تھا کہ آئو پھر ہم تم سب اس نبی کی اطاعت قبول کرلیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو یہ کم بخت خود تیار نہ ہوتے تھے اور دوسروں سے کہہ دیا کرتے تھے کہ تم چاہو تو مسلمان ہو جائو تم کو اختیار ہے ہم ایسا نہیں کرسکتے اس کو فرمایا کہ دوسروں کو تو بھلی بات کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے کو فراموش کئے ہوئے ہوحالان کہ تم توریت پڑھتے ہو تو کیا تم کو یہ مسئلہ نہیں معلوم کہ تمہاری کتاب میں بےعمل واعظوں کی کیسی وعید آئی ہے اور یہ کتنا بڑا گناہ ہے کہ دوسروں کو تو نصیحت کرو اور خود عمل نہ کرو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی عام عادت خود تو فسق و فجور کی ہو رشوت اور سود کھاتے ہو ۔ جھوٹ بولتے ہوں لیکن جب سہیکل میں تقریر کرتے ہوں تو ان سب باتوں کو حرام کہتے ہوں اس پر تنبیہ فرمائی ہو بہر حال آیت میں بےعمل عالموں کی مذمت ہے احادیث صحیحہ میں ایسے بےعمل لوگوں کی سخت مذمت اور وعیدہ موجود ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بےعمل اور فاسق کسی کو نصیحت ہی نہ کرے اگر کوئی بھلی بات کسی کو معلوم ہو خواہ وہ خود بےعمل ہی کیوں نہ ہو مگر دوسرے کو بتاسکتا اور سمجھا سکتا ہے غرض ایک بےعمل عالم کو وعظ اور پند و نصیحت کا حق باقی رہتا ہے آگے کی آیت میں ان کے مرض کا علاج فرماتے ہیں کیونکہ اسلام قبول کرنے اور نبی کریم ﷺ کی اطاعت سے روکنے کے دو سبب تھے ایک حب جاہ اور ایک حب مال او انہی دو بیماریوں سے ان میں حسد بھی پیدا ہوگیا تھا وہ کہتے تھے کہ اگر ہم مسلمان ہوگئے اور نبی آخر الزمان کے فرمانبردار ہوگئے تو ہمارے نذرانے اور رشوتیں سب بند ہوجائیں گی اور ہمیں مالی نقصان ہاتھ سے نکل جائیں گے اگر وہ سب مسلمان ہوگئے تب بھی ہم سے گئے اور اگر وہ یہودی رہے تب بھی وہ ہمارے نہ رہیں گیان ہی دو بیماریوں کا آگے کی آیت میں علاج مذکور ہے۔ ( تسہیل)
Top