Kashf-ur-Rahman - Al-Muminoon : 75
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
اور اگر ہم ان پر مہربانی کریں اور ان پر جو تکلیف ہے اس کو ہم دور بھی کردیں تو یہ لوگ بحالت تحیر و تردد اپنی سرکشی میں اور زیادہ اصرار کرنے لگیں
(75) آگے ان کی جہالت اور احسان فراموشی کی حالت اور متکبرانہ عادت کو اور واضح فرماتا ہے اور اگر ہم ان پر رحم اور مہربانی فرمائیں اور ان پر جو تکلیف ہے اس کو دور بھی کردیں تو یہ لوگ بحالت تحیر و تردد اپنی سرکشی میں اور اصرار کرنے لگیں کفار کی یہ عام عادت ہے کہ مصیبت ک وقت مخلص بن کر خدا کو پکارتے ہیں اور جب وہ تکلیف اور مصیبت دور ہوجاتی ہے تو پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ آیت میں شاید اس قحط کی طرف اشارہ ہو جو حضور ﷺ کی دعا سے مکہ والوں پر مسلط ہوا تھا یا عام اشارہ ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت ﷺ کی دعا سے ایک بار مکہ کے لوگوں پر قحط پڑا تھا پھر حضرت ﷺ ہی کی دعا سے کھلا شاید اسی کو فرمایا۔ 12 غرض ! ان کی ناسپاسی اور احسان فراموشی ظاہر ہے آگے ان کے عام طرز عمل کا ذکر فرمایا۔
Top